Featuredاسلام آباد

حکومت نے مالی سال 2022-23ء کے لیے 9502 ارب کا بجٹ پیش کردیا

 اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے مالی سال 23-2022 کے لیے 95کھرب حجم کا بجٹ پیش کردیا۔

حکومت نے مالی سال 2022-23ء کے لیے 9502 ارب کا بجٹ پیش کردیا جس میں ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 7 ہزار 4 ارب روپے لگایا گیا ہے جب کہ 4598 ارب کا خسارہ ہے، بجٹ میں دفاع کے لیے 1 ہزار 523 ارب، ترقیاتی کاموں کے لیے 808 ارب، سود کی ادائیگی کے لیے 3 ہزار 950 ارب مختص کیے گئے ہیں۔

مالی سال 23-2022 کے لیے ترقیاتی منصوبوں پر 550 ارب روپے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 364 ارب روپے رکھے جائیں گے جبکہ 40 ہزار سے کم آمدنی والے خاندانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں گے۔

اپنی تقریر کے دوران وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پونے چار سال معاشی بے انتظامی عروج پر تھی، ناتجربہ کار ٹیم نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اصلاحات میں تاخیر سے معیشت کو نقصان پہنچا، روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میںشدید اضافہ ہوا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت اور ملک کے فائدے کےلیے مشکل فیصلے کرنے کے لیے تیار ہیں، مشکل فیصلوں کی گھڑی ابھی مکمل نہیں ہوئی، ہم نے پہلے بھی کام کیا، کر سکتے ہیں اور کر کے دکھائیں گے۔

وزیر خزانہ کاکہنا تھا کہ کم آمدنی والے طبقے کو مراعات دینی ہوں گی، معاشی ترقی کی مضبوط بنیاد رکھنی ہوگی، زراعت اور آئی ٹی کی برآمدات بڑھانی ہوں گی، تاریخی مہنگائی، زرمبادلہ کی کمی، لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سابق حکومت نے 20 ہزار ارب روپے قرض لیا، عمران حکومت نے آمدن سے زیادہ خرچ کیا، تاریخی خسارے کے بجٹ پیش کیے۔

سابقہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت ریاست پاکستان کے لیے بارودی سرنگ چھوڑ کر گئی، 2018 سے 2022 کے دوران روپے کی قدر میں 61 فیصد کمی آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم بالخصوص غریب عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا چاہتے ہیں، زیادہ آمدن والوں پر ٹیکس لگانا ہی راستہ ہے، ایسی اشیا پر ٹیکس لگائیں گے جو غریب کم سے کم استعمال کرتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ محصولات میں چوری ختم کر کے اضافی وصولی، ٹیکس کی لیکج یا چوری 3 ہزار ارب روپے تک پہنچ گئی ہے، وزیراعظم ٹیکس چوری کم کرنے کے لیے ٹاسک فورس بنا رہے ہیں۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ حکومت کفایت شعاری کے عملی اقدامات کرنے جارہی ہے، پنشن فنڈ قائم کرنے کے لیے 10 ارب روپے کی رقم جاری کردی، تجارتی توازان عمل میں لاکر ڈالر کی قیمت مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ 10 ہزار مزید طلبا کو بےنظیر انڈر گریجویٹ اسکالر شپس دی جائیں گی۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 65 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ ایچ ای سی کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 44 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں بھی یونیورسٹی بنانے کا آغاز ہوگا، ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان اقساط پر مہیا کیے جائیں گے۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 21 ارب مختص کیے گئے ہیں۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سندھ بلوچستان کے چھوٹی ماہی گیروں کے لیے پورٹ کلیرنس کی شرط ختم کردی گئی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ نوجوانوں کو 5 لاکھ روپے تک بلاسود قرض اسکیم شروع کی جائے گی، انڈسٹریل فیڈرز لوڈشیڈنگ سے مستشناء ہوں گے، اب تک ملک میں ایک بھی اسپیشل اکنامک زون فعال نہیں ہے۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ رقم بلوچستان کی ترقی پر خرچ کی جارہی ہے، پی ایس ڈی پی میں صوبوں، گلگت بلتستان کے لیے 126 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے لیے 395 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

جی ڈی پی کی شرح :

وزیر خزانہ نے بتایا کہ نئے بجٹ میں جی ڈی پی کی شرح 5 فیصد رکھی گئی ہے، آئندہ مالی سال افراط زر کو کم کر کے 11.5 فیصد پر لایا جائے گا جبکہ مجموعی خسارے میں کمی لا کر اسے 4.9 فیصد تک لایا جائے گا۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ:

وزیر خزانہ نے ملک کے شدید مالی بحران کا شکار ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے لہٰذا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔

سبسڈیز:

سبسڈیز کی مد میں 1515 ارب روپے خرچ ہوں گے جن میں سے ٹارگیٹڈ سبسڈیز 699 ارب روپے رکھی گئی ہیں، ہر مہینے چینی اور آٹے پر سبسڈی رکھی گئی ہے جن کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انکم ٹیکس :

نئے مالی سال تنخوادار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی حد 12 لاکھ روپے کردی گئی ہے۔،نئے بجٹ میں 40 ہزار سے کم آمدنی والوں کا 2 ہزار روپے وظیفہ بجٹ میں شامل کردیا۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام:

وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ بےنظیر نشوونما پروگرام تمام اضلاع تک بڑھایا جائے گا،بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 364 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

قرضوں کی ادائیگی:

وزیر خزانہ نے بتایا کہ 3 ہزار 144 ارب روپے قرضوں کی سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔

ریونیو:

آئندہ مالی سال کے دوران سال ایف بی آر کا ریونیو ہدف 7 ہزار 4 ارب روپے ہوگا جبکہ گزشتہ برس یہ 6 ہزار ارب روپے تھا۔

نئے مالی سال میں وفاقی حکومت کے پاس نیٹ ریونیو 4 ہزار 904 ارب روپے ہوگا جبکہ نان ٹیکس ریونیو میں 2 ہزار ارب روپے ہوں گے۔

دفاعی بجٹ:

نئے مالی سال 23-2022 میں ملکی دفاع کے لیے 1523 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ سول انتظامیہ کے لیے 550 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

کےفور منصوبہ:

وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے لیے کراچی میں فراہمی آب کے منصوبے ’کے-فور‘ کے لیے 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انٹرٹینمنٹ انڈسٹری:

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ فلم کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے، فلم سازوں کو 5 سال کے لیے ٹیکس پر چھوٹ دی جا رہی ہے،مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ سنیما پروڈیوسرز کو انکم ٹیکس سے استثنیٰ دیا جا رہا ہے، نیشنل فلم اسٹوڈیو کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے،وزیر خزانہ نے کہا کہ فلم اور ڈراموں کے لیے مشینری کی امپورٹ پر 5 سال ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے گا۔

وفاقی کابینہ کی منظوری:

اس سے قبل وفاقی کابینہ نے مالی سال 23-2022 کے بجٹ کی منظوری دی تھی۔

وفاقی کابینہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کی منظوری دی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 جبکہ پینشن میں 5 فیصد اضافے کی منظوری دیدی گئی۔

خیال رہے کہ سرکاری ملازمین کی پینشن میں اپریل میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔ آئندہ مالی سال کیلئے اخراجات کا تخمینہ 9 ہزار 502 ارب روپے ہے، ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے سے 71 ارب 59 کروڑ کا بوجھ پڑے گا۔

بجٹ کے اہم نکات
کل اخراجات کا تخمینہ 9ہزار 502 ارب روپے ہے۔

قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3ہزار 144ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے 800ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ملکی دفاع کے لیے ایک ہزار 523ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 550ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

پنشن کی مد میں 530ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

سبسڈیز کے لیے 699ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

چھوٹے کاروبار میں سالانہ چھ لاکھ آمدن والوں پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہو گا۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 364ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ایک کروڑ طلبہ کو بے نظیر اسکالرشپ دی جائے گی۔

تعلیم کے لیے 109ارب روپے بجٹ میں مختص کیے گئے ہیں۔

کم از کم ایک لاکھ سے زائد ماہانہ تنخواہ پر ٹیکس ہو گا۔

40ہزار ماہانہ سے کم آمدن والوں کو ماہانہ 2ہزار روپے دیے جائیں گے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

1600سی سی اور اس سے زائد کی گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔

سولر پینل کی درآمدات پر صفر سیلز ٹیکس عائد ہو گا۔

ماحولیاتی تبدیلی کے لیے 10ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

 

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close