کمزور قوانین انصاف بدعنوان اشرافیہ کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں
اسلام آباد : دنیا بھر کے ممالک وائٹ کالر کرائم پر قابو پانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ میں ذاتی طور پر پاکستان کے آئین کی تقلید اور پاسداری کرتا ہوں۔ ہمیں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔ میں خود کو اللہ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہوں۔ میرا ضمیر مجھے احتساب ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
صدر مملکت کا کہنا ہے کہ احتساب کے عمل کو کمزور کرنا خلاف آئین ہے، کمزور قوانین انصاف بدعنوان اشرافیہ کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں، میرا ضمیر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ میرے خیال میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ بل رجعت پسندانہ نوعیت کا ہے۔ بل سے قانون کے لمبے ہاتھوں کو مفلوج کرکے بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوگا۔ یہ بل بدعنوان عناصر کیلئے واضح پیغام ہے کہ وہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں اور بلاخوف و خطر اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام میں کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی کہ بدعنوان عناصر نے بے تحاشہ دولت اکٹھی کر رکھی ہے۔ کمزور آدمی معمولی جرائم میں بھی پکڑا جائے گا، جب کہ بااثر بدعنوان عناصر کو قوم کا خون چوسنے کے مکروہ عمل کی کھلی آزادی مل جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ احتساب کے عمل کو کمزور کرنا نہ صرف خلاف آئین ہے، بلکہ پہلے سے مسائل زدہ پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ صدر پاکستان کے بل پر دستخط نہ کرنے کے باوجود یہ بل قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا۔
صدر نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک کو وائٹ کالر کرائم پر قابو پانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ سیاسی عناصر کا کالا دھن، جو کہ ٹیکس چوری، جرائم اور بدعنوانی کے دیگر ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے، کوئی ایسا نشان نہیں چھوڑتا کہ جس کا کھوج لگایا جا سکے۔
عارف علوی کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف بھی ایک ایسی ہی مثال ہے جو کہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے دہائیوں سے کام کررہا ہے۔ ہمیں ایسے معاملات پر اسلامی فقہ سے بھی ہدایت لینی چاہیے۔ ملزم کو ذرائع آمدن کے بارے میں ثبوت پیش کرنا ہوتے ہیں کہ جائیداد یا دولت کہاں سے اور کیسے حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ دولت کی ملکیت ثابت کرنا استغاثہ کی جب کہ دولت کے ذرائع ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے۔ نامعلوم ذرائع سے دولت کا حصول پاکستان میں ایک جرم تھا، مگر ان ترامیم سے اس تصور کو کمزور کر کے اسے کافی حد تک غیر مؤثر بنا دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی اس عام تاثر کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے نیب آرڈیننس کے نفاذ میں خامیاں موجود ہیں۔ یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح انتظامیہ کو اختیار دیتا ہے کہ اس کا استعمال طاقتور عناصر کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا جاسکے۔
صدر مملکت نے کہا کہ ایک طرف جب عوام کی جانب سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا تقاضہ کیا جاتا رہا تو دوسری طرف طویل عدالتی کاروائیوں اور غیر مؤثر استغاثہ نے بدعنوانی کو بے نقاب کرنا، روکنا اور ختم کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔
عارف علوی کا کہنا تھا کہ ہمیں گزشتہ چند دہائیوں کے تجربات کی روشنی میں ان قوانین میں موجود واضح سقم دور کرنے، انصاف کی فراہمی مؤثر بنانے کیلئے ترامیم لانی چاہیے تھی۔ اس بات کی ہرگز توقع نہ تھی کہ پچھلی حکومتوں کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا جائے گا، احتساب کے عمل کو ناقابل یقین حد تک کمزور بنادیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ ادارے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتر ی لانے کی بجائے بغیر کسی متبادل نظام کے احتساب کے عمل کو زمین بوس کر دیا گیا، جو کہ احتساب کے عمل کو غیر مؤثر بنانے اور استحصالی اداروں اور نظام کو فروغ دینے کے مترادف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کمزور قوانین انصاف کے لبادے میں بدعنوان اشرافیہ کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں۔ جو اقوام ایسے قوانین اپناتی ہیں وہ نہ صرف عام آدمی کے استحصال کا موجب بنتی ہیں بلکہ معاشرے میں ناانصافی کے فروغ کا بھی باعث بنتی ہیں۔
صدر مملکت کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں ذاتی طور پر پاکستان کے آئین کی تقلید اور پاسداری کرتا ہوں۔ ہمیں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔ میں خود کو اللہ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہوں۔ میرا ضمیر مجھے احتساب ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔