پانامہ کیس، سماعت مکمل، دلائل مکمل، فیصلہ محفوظ کرلیا گیا
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاناما عمل در آمد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے پاناما عمل درآمد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا۔ فیصلے کی تاریخ کا اعلان بعد میں ہوگا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران شریف خاندان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا اپنے دلائل میں کہا کہ کل کی سماعت میں نیلسن اور نیسکول کے ٹرسٹ ڈیڈ پر بات ہوئی تھی، عدالت کے ریمارکس تھے کہ بادی النظر میں یہ جعلسازی کا کیس ہے اور اسی حوالے سے میں نے کل کہا تھا اس کی وضاحت ہوگی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ دستخط کیسے مختلف ہیں جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اکرم شیخ نے کہا ہے کہ غلطی سے یہ صفحات لگ گئے تھے، یہ صرف ایک کلریکل غلطی تھی جو ان کے چیمبر سے ہوئی، کسی بھی صورت میں جعلی دستاویز دینے کی نیت نہیں تھی، ماہرین نے غلطی والی دستاویزات کا جائزہ لیا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ مسئلہ صرف فونٹ کا رہ گیا ہے، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ دوسرا معاملہ چھٹی کے روز نوٹری تصدیق کا ہے، لندن میں بہت سے سولیسٹر ہفتہ بلکہ اتوار کو بھی کھلتے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز سے پوچھا گیا کہ چھٹی کے روز ملاقات ہو سکتی ہے، حسین نواز نے کہا تھا کہ چھٹی کے روز اپائنٹمنٹ نہیں ہو سکتی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عام سوال کیا جائے تو جواب مختلف ہوگا مخصوص سوال نہیں کیا گیا۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 10 بھی منگوا لیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دسویں جلد میں جے آئی ٹی کے خطوط کی تفصیل ہوگی اور دسویں جلد سے بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی جس کے بعد جے آئی ٹی رپورٹ کا سربمہر والیم 10 عدالت میں پیش کردیا گیا، والیم 10 کی سیل عدالت میں کھول دی گئی اور عدالت نے والیم 10 کا جائزہ بھی لیا جبکہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ خواجہ صاحب یہ والیم آپ کی درخواست پر کھولا جا رہا ہے۔ عدالت نے خواجہ حارث کو والیم 10 کی مخصوص دستاویز پڑھنے کو دے دی تاہم عدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ ابھی والیم 10 کسی کو نہیں دکھائیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا دستاویزات میں متعلقہ نوٹری پبلک کی تفصیل ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز کا اکثر سولیسٹر سے رابطہ رہتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز نے نہیں کیا کہ ان کا رابطہ سولیسٹر سے رہتا ہے، ان دستاویزات پر کسی کے دستخط بھی نہیں، کل عدالت کو بی وی آئی کا 16 جون کا خط موصول ہوا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 23 جون کو جے آئی ٹی نے خط لکھا، جواب میں اٹارنی جنرل بی وی آئی نے خط لکھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریفرنس نیب کو بھجوا دیا جائے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا جواب ہے کہ کیس مزید تحقیقات کا ہے، خطوط کو بطور شواہد پیش کیا جا سکتا ہے لیکن تسلیم نہیں کیا جا سکتا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ شواہد کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا ٹرائل کورٹ کا کام ہے جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کل پوچھا تھا کیا قطری شواہد دینے کے لیے تیار ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری کی جانب سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کل عدالت نے کہا تھا کہ قطری نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کل جسٹس عظمت سعید نے پوچھا تھا کہ کیا آج قطری پیش ہونے کو تیار ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری کو ویڈیو لنک کی پیشکش نہیں کی گئی، 2004ء تک حسین اور حسن کو سرمایہ ان کے دادا دیتے رہے، اگر بیٹا اثاثے ثابت نہ کر سکے تو ذمہ داری والدین پر نہیں آ سکتی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کی آمدن اثاثوں کے مطابق نہ ہو تو کیا ہوگا، پبلک آفس ہولڈر نے اسمبلی میں کہا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے فلیٹس خریدے، جس کے بعد وزیراعظم نے کچھ مشکوک دستاویزات اسپیکر کو دیں، ہم ایک سال سے ان دستاویزات کا انتظار کر رہے ہیں، یہاں معاملہ عوامی عہدہ رکھنے والے کا ہے، وہ اپنے عہدے کے باعث جواب دہ ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے نے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ بچوں کے کاروبار کے تمام ثبوت موجود ہیں اور ہم ایک سال سے ان ثبوتوں کا انتظار کر رہے ہیں، رپورٹ میں مریم کے بینیفیشل مالک ہونے کا کہا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کی کمپنیوں کا بینیفیشل مالک ہونا کیپٹن صفدر کے گوشواروں میں ظاہر نہیں ہوتا، اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ گوشواروں میں ملکیت کا ذکر نہیں تو عوامی نمائندگی ایکٹ لاگو ہو گا جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ لاگو کرنے کے لیے باقاعدہ قانونی عمل درکار ہو گا، جے آئی ٹی کو ایرول جارج نے اپنے جواب میں 2012ء جون کی صورتحال کی تصدیق کی اور ایرول جارج کے بیان میں کوئی نئی بات نہیں۔ شریف خاندان کے وکیل کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ انہوں نے عدالت میں دو جواب داخل کرائے ہیں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے دائرے میں رہ کر لہروں کے خلاف بھی تیرنا ہو تو تیر لیں گے۔ سماعت کے دوران طارق حسن کی جانب سے اسحاق ڈار کا 34 سالہ ریکارڈ سر بمہر پیش کیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ ڈبہ اب سارا دن ٹی وی کی زینت بنے گا جس پر طارق حسن نے کہا کہ سنا ہے جے آئی ٹی نے بھی ایسے ہی ڈبے پیش کیے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ بھی شواہد کے ڈبے دے کر جے آئی ٹی کی پیروی کر رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے اثاثوں میں اضافے کا کہا لیکن اسحاق ڈار اس کا جواب نہ دے سکے، اس سے ہو سکتا ہے اسحاق ڈار کے خلاف کارروائی شروع ہو جائے، حدیبیہ پیپر ملز کیس میں آپ شامل تھے، حدیبیہ پیپر ملز کیس کے خارج ہونے کو تسلیم کر لیں تو بھی اسحاق ڈار کے خلاف کافی مواد ہے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آج اسحاق ڈار کا ٹیکس ریکارڈ موجود ہے جس پر اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے مکمل بدنیتی ظاہر کی، تین ذرائع سے یہ ریکارڈ جمع کیا جس پر جسٹس اعجاز احسن نے ریمارکس دیئے کہ اثاثے پانچ سال میں 9 ملین سے بڑھ کر 835 ملین ہو گئے، بتائیں کہ شیخ النیہان نے کن شرائط پر اسحاق ڈار سے معاہدہ کیا جس پر طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار صرف سیاستدان نہیں پروفیشنل اکاؤنٹنٹ بھی ہیں، اگر پاکستان میں دو لاکھ کماؤں اور باہر جا کر کمائی دس گنا بڑھ جائے تو کیا یہ غلط ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ صرف دو لاکھ سالانہ کماتے ہیں تو پھر پیشہ چھوڑ دیں، جس پر طارق حسن نے کہا کہ سیاست میں آنے کے بعد کئی بار اسحاق ڈار کے اکاؤنٹس کی پڑتال کی گئی، آج تک اسحاق دار کے خلاف کچھ نہیں نکلا۔ ریکارڈ کے بغیر جے آئی ٹی کیسے اسحاق ڈار کے خلاف کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہ ڈرامائی کہانی ہے تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ کہانی ڈرامے کی طرح ختم ہو، جو تحریری جواب آپ نے دیا ہے یقین رکھیں اس کا جائزہ لیا جائے گا، تحریری جواب سے ہٹ کر دلائل ہیں تو دیں ہم سنیں گے۔ طارق حسن ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان کا موکل جے آئی ٹی میں بطور گواہ گیا تھا لیکن یہاں لگتا ہے وہ ملزم ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے جو کیا وہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے باعث کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے نیب اور ایف آئی اے سے ملنے والی دستاویزات کا جائزہ لینا تھا، اسحاق ڈار کا بیٹا بیرون ملک کمپنی سے باپ کو پیسے بھیجتا رہا، اسحاق ڈار کا اپنے بیٹے سے پیسے لینا ٹیکس بچانے کے لیے تھا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ ماضی کی طرح شریف خاندان کے خلاف دوبارہ گواہ بننا چاہتے ہیں؟۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 800 ملین کا اضافہ ہوا، اسحاق ڈار نے بیٹے کو کمپنی ہل میٹل کے فنڈز دئیے، بیٹے نے وہی رقم باپ کو تحفے میں بھیج دی، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ مسٹر طارق حسن کم از کم آپ تو اپنے موکل سے انصاف کر لیں اور ہمیں بھی اسحاق ڈار سے انصاف کرنے دیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم یہ کہہ دیں کہ آپ کے دلائل سن کر اطمینان ہوا، دونوں فریقین سن لیں اس کیس میں ہم قانون سے باہر نہیں جائیں گے، سب کے بنیادی حقوق کا احساس ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ فریقین ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں، ہمیں کچھ نہ کہیں، کیس ختم ہو جائے گا، آپ چلے جائیں گے مگر ہمارا کام جاری رہے گا، بہت زیادہ تفصیل دینا بھی کیس کو برباد کر دیتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جس چیز کی آئین اور قانون نے اجازت نہیں دی وہ نہیں کریں گے، انصاف کے تقاضے پورے کرنا تھے اسی لیے کیس کو روزانہ سنا۔ اسحاق ڈار کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آکر کہا کہ وفاق کا موقف ہے کہ عدالت نے 5 ماہ کیس سنا، ہر فریق کو مناسب موقع دیا گیا، تحقیقات میں نیا ریکارڈ بھی سامنے آیا، مجھے یقین ہے کہ عدالت فریقین کے حقوق کا خیال رکھے گی، جے آئی ٹی کی فائنڈنگز عدالت پر لازم نہیں۔
نیب کے وکیل چوہدری اکبر تارڑ نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیب نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کھولنے کا فیصلہ کر لیا، ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے سوچ لیا تو یہ سوچ تحریری شکل میں کب آئے گی جس پر چوہدری اکبر تارڑ نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔ فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے جواب الجواب میں کہا کہ تمام دلائل سننے کے بعد ثابت ہو گیا کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں، وزیر اعظم نے ایف زیڈ ای کمپنی اور اس سے تنخواہ کی وصولی ظاہر نہیں کی گئی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے تنخواہ نہیں لی جس پر جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس دیئے کہ تنخواہ لینے اور نہ لینے کے اثرات علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ یہ حقیقت ہے کہ اگر اثاثے ظاہر نہ کیے گئے تو بددیانتی کہلائے گی، سوال یہ ہے کہ یہ ہمارا دائرہ اختیار ہو گا یا الیکشن کمیشن کا ہوگا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ تقریر میں وزیر اعظم نے گلف اسٹیل مل 33 ملین درہم کی فروخت کرنے کا کہا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بی سی سی آئی رقم شامل کرنے پر 33 ملین کی ہی بنتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ بقایا جات ادائیگی کے بعد سرمایہ کاری کے لیے کچھ نہیں بچا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ شہباز شریف نے 1980ء کے سیل معاہدے کو تسلیم نہیں کیا، سعودی عزیزیہ مل 63 ملین میں فروخت کرنے کا کہا گیا، اس حوالے سے بھی 20 ملین کم ہیں، وزیراعظم نے سعودیہ مل کی فروخت سے لندن فلیٹس خریداری کا کہا، حسن نے 2001ء میں کاروبار شروع کیا جبکہ عزیزیہ 2005ء میں فروخت ہوئی، وزیراعظم کو ہل میٹل اور حسین نواز سے تحائف آ رہے ہیں، 1980ء میں شہبازشریف نے خود کو کاروبار سے الگ کیا، طارق شفیع شہباز شریف کے نمائندے بنے رہے، جدہ مل کی 20 ملین رقم واجب الادا تھی، گلف اسٹیل مل کی فروخت کے بارے بھی غلط بیانی کی گئی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا کسی پبلک آفس ہولڈر کے ملازمت کرنے پر پابندی ہے۔
جس پر نعیم بخاری نے کہا جی بالکل ہے، پبلک آفس ہولڈر کی ملازمت مفادات کا ٹکراوٴ ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ امریکا سے بھی وزیر اعظم کو شیخ سعید نامی شخص سے 10 ملین ملے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں پابندی ججز کی دوسری ملازمت کے لیے ہے ،کسی دوسرے آفس ہولڈر کے لیے نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کی کسی دوسری ملازمت پر پابندی ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں وزیر اعظم کی کسی دوسری ملازمت بارے کچھ نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے جو چیزیں درخواست میں نہیں کیا ہمیں ان پر جانا چاہیے، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو تمام معاملات کی جانچ کا کہا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ نئی چیزیں کیس میں شامل کر کے فریقین کو سرپرائز دیا جا سکتا ہے، یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بار ثبوت شریف خاندان پر ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ فیملی سیٹلمنٹ کے وقت 93 سے زیر استعمال فلیٹس زیر بحث نہیں آئے، قطری خطوط نکال دیں تو 1993-96ء سے لندن فلیٹس نواز شریف کی ملکیت بنتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری اسپریڈ شیٹ تو نہ ادھر کی ہے نہ ادھر کی جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ بہترین وضاحت یہ ہوتی کہ فلیٹ میاں شریف نے خریدے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ اگر ہم مان لیں کہ فلیٹس کی مالک مریم ہیں اور مریم نواز شریف کی زیر کفالت ہیں تو اثاثے ظاہر کرنے پر ہی وزیر اعظم کی نااہلی بارے فیصلہ دیا جا سکتا ہے، اگر زیر کفالت ثابت نہ ہو تو صرف مریم کا فلیٹ کا مالک ہونا کافی نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی بنی تو سب نے کہا کہ جے آئی ٹی کا کام آزادانہ ہو گا، جے آئی ٹی نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا، اگر ہم نے ٹرائل سے متعلق فیصلہ دیا تو یہ فیئر ٹرائل ہو گا جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے جن حالات میں کام کیا قابل تحسین ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کو بینیفشل مالک تسلیم کر بھی لیں تو زیر کفالت کا معاملہ آئے گا، درخواست میں آپ نے مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کا کہا تھا، مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کے واضع شواہد نہیں ملے جس پر نعیم بخاری نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں وزیر اعظم عہدے پر رہنے کے قابل نہیں رہے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے جوابی دلائل میں کہا کہ عظیم ججز کے سامنے پیش ہوا ہوں، جے آئی ٹی کے سپر سکس نے ثابت کر دیا کہ پاکستان رہنے کے قابل ملک ہے، قوموں کی تقدیر بدلنے کے لیے ایسے ہی افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے، عدالت نے قطری کی سرمایہ کاری کا پوچھا لیکن جواب نہ آیا، شریف خاندان نے 13 سوالوں کے جواب بھی نہ دیئے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر مٹھائیاں بانٹی گئیں، لگتا ہے میری طرح ان کی انگریزی بھی کمزور ہے، جے آئی ٹی والوں کو وزیر اعظم نے کل اپنی تقریر میں دھمکایا ہے، وزیراعظم نے کل جے آئی ٹی کے بارے میں الفاظ استعمال کر کے عدالت کی توہین کی۔ شیخ رشید نے اپنے جواب میں کہا کہ سربراہان مملکت کے صادق اور امین ہونے کا تصور آفاقی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ لاہور میں صادق اور اسلام آباد میں کرپٹ ہوں، جس کی طرف دیکھو بے نامی دار ہیں، شریف فیملی پاناما سے اقامہ تک پہنچ گئی، وزیراعظم نے تو دبئی والوں کو بھی چونا لگایا، اقامہ لیتے وقت دبئی والوں کو نہیں بتایا کہ میں پاکستان کا وزیراعظم ہوں، آج ڈبہ لے آئے ہیں میں تو ایسے ڈبے میں چندہ ڈالتا ہوں، منی ٹریل مانگ مانگ کر عدالت تھک گئی، یہاں تک کہا گیا لاؤ منی ٹریل، کلین چٹ دے دیں، اگر ان کو اقامے پسند ہیں تو وہاں چلے جائیں، ہماری جان چھوڑ دیں، وزیراعظم دبئی میں مارکیٹنگ مینیجر ہیں، لگتا ہے قطری کو بھی خط ڈالنے کی عادت ہو گئی ہے، میرا کیس 62,63 کا ہے۔
شیخ رشید نے کہا کہ قطری خط نکال دیں تو ان کے پاس رہ کیا جاتا ہے، میں نمازوں میں دعا مانگتا ہوں یا اللہ شیخ عظمت سعید بیمار نہ ہو جائیں، نواز شریف نے اپنے بچوں کے بیانات تسلیم کر کے اچھی بات کی ہم کوئی بھکاری ملک نہیں۔ نواز شریف پر منی لانڈرنگ، کسٹم ایکٹ، فارن ایکسچینج ایکٹ اور امپورٹ ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ لگایا جائے جس پر جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ شیخ رشید صاحب آپ کہیں موٹر وہیکل ایکٹ نہ لگا دیں۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے جواب میں کہا کہ جے آئی ٹی کی سفارشات کے بعد تمام شکوک و شبہات دور ہو چکے ہیں، دو ججز پہلے ہی نااہلی کا فیصلہ دے چکے ہیں، عدالت نے نواز شریف کی نااہلی کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت کا حکم تھا، نہ واپس لیا نہ لیں گے، ہم پہلے ہی نااہلی کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ گارنٹی دیتے ہیں نااہلی کا معاملہ زیرغور لائیں گے۔