توہین عدالت کیس میں عمران خان کا جواب غیر تسلی بخش قرار
اسلام آباد: عمران خان پر توہین عدالت کے مقدمے میں فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ سنادیا، ان پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔
عدالت نے خاتون جج کو دھمکی دینے پر چیئرمین تحریکِ انصاف سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف بیان پر توہین عدالت کی کارروائی کی جارہی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ ان کے خلاف سماعت کررہا ہے۔
بنچ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بھی شامل ہیں۔ عمران خان توہین عدالت کیس کے عدالتی معاون مخدوم علی خان، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف بھی اسلام عدالت پہنچے۔ عمران خان بنچ کے روبرو پیش ہوئے جہاں ان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوگئی۔
عدالت کے حکم پر عمران خان کے وکیل حامد خان پیش ہوئے اور کہا کہ گزشتہ روز میں نے عدالت کی آبزرویشن کے مطابق جواب جمع کرادیا تھا، ہم اس معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، 31 اگست کی سماعت کے دوران عدالت نے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کیسز کے حوالے دئیے تھے، میں عدالت کو بتاؤں گا کہ کیسے ہمارا کیس سپریم کورٹ کے ان فیصلوں سے مختلف ہے، میں عمران خان کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے بھی عدالت کے سامنے رکھوں گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین فیصلوں کو ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا، فردوس عاشق اعوان کیس میں تین قسم کی توہین کا ذکر ہے، طلال چوہدری کیس کرمنل توہین عدالت نہیں تھی، کرمنل توہین عدالت سیریس نیچر کی ہے، کرمنل توہین عدالت میں آپ ارادے کا ذکر نہیں کرسکتے، گزشتہ سماعت پر بھی آپ کو سمجھایا تھا یہ کرمنل توہین عدالت ہے، آپ نے زیر التوا مقدمہ سے متعلق بات کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا جواب ہم نے تفصیلی پڑھا ہے، دانیال عزیز اور طلال چودھری کے خلاف کرمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی، ان کے خلاف عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بونڈ ہیں۔
اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم یہ معاملہ کلوز کرنا چاہتے ہیں، ہم نے نہایت احترام کے ساتھ گزارشات پیش کر دی ہیں، عدالت نے ایک اور موقع دیا جس پر تفصیلی جواب داخل کرا دیا ہے۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کرمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کرمنل توہین میں آپ کوئی توجیہ پیش نہیں کرسکتے، ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، کریمنل contempt میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا یہ مقصد تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی کسی جج کے فیصلے سے متاثرہ بھی ہے تو اس کا ایک پراسس ہے، حامد خان صاحب! آپ کو پچھلی بار بھی کہا تھا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری ہمارے لیے ریڈ لائن ہے، یہ بتا دیں کہ آپ نے جواب میں justify کرنے کی کوشش کی ہے؟ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے justify نہیں کیا بلکہ وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔
جسٹس اطہر نے کہا کہ ہم نے قانون کے تحت جانا ہے، بہت ہی شدید نوعیت کا offence کیا گیا لیکن اس کا احساس قطعا نہیں ہے، کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں توجیہات پیش کرنے کی کوشش کی، کیا کوئی سابق وزیر اعظم توجیہ پیش کرسکتا ہے کہ مجھے قانون کا پتا نہیں تھا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ بہت بڑا جرم کیا گیا لیکن احساس نہیں ہے، عوامی مقامات پر کسی کی بھی بے عزتی کردی جاتی ہے، اتنی تقسیم سوسائٹی میں ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بےعزت کرتے ہیں، اگر اس جج کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے تو پھر کیا ہوگا؟ ہم نے وکلا تحریک کے ثمرات حاصل نہیں کیے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کیا آپ شوکاز نوٹس کا پیرا پانچ پڑھیں گے؟ آپ ایک شوکاز نوٹس کا جواب دے رہے ہیں، اسی شوکاز نوٹس کا پیرا پانچ پڑھیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بتا دیں گا کہ فیصلے جلسے میں ہوں گے یا عدالتیں کریں گی؟ 70 سال میں کچھ اچھا نہیں ہوا، کیا سپریم کورٹ کے جج سے متعلق بیان ہوتا تو یہی جواب جمع ہوتا؟ کیا ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے لیے بھی یہی جواب ہوتا؟ افسوس ہوا جواب دیکھ کر جہاں آپ توجیہات پیش کررہے ہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمارے لیے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل احترام ہیں، ہم نے لکھا کہ جج کے احساسات کو ٹھیس پہنچی تو اس پر شرمندگی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جج کے بارے میں اشتعال انگیزی پھیلائی گئی، وہ جج کہیں جا رہی ہوں تو ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آسکتا ہے، یہ صرف خاتون جج کے خلاف بیان نہیں اشتعال دلانے کا کیس ہے، کیا کوئی جلسے میں لیگل ایکشن کی دھمکی لگاسکتا ہے؟
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ سیاسی لیڈر پبلک میں کھڑا ہو کر لیگل ایکشن کی دھمکی بھی کیسے دے سکتا ہے؟ سیکشن نائن پڑھیں آپ اس میں لیگل ایکشن کا طریقہ دیا گیا ہے، فورمز قانون میں بتائے گئے ہیں، فورم پبلک میٹنگ نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ قانونی کارروائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے، ہم نے قانونی کارروائی قانون کے دائرے سے باہر جا کر تو نہیں کرنی تھی، عمران خان نے کوئی دھمکی نہیں دی شاید محسوس زیادہ کرلی گئی۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ عوامی جلسے میں جو کچھ کہا گیا وہ آپ چاہیں تو ہم اسے یہاں چلا سکتے ہیں، عمران خان نے اپنے رویے سے بھی یہ نہیں ظاہر کیا کہ انہیں افسوس ہے، تقریر اور توہین عدالت کیس کے بعد بھی تقریروں میں توجیہات پیش کی جاتی رہی۔
جسٹس اطہر نے وکیل سے کہا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے سامنے کہا تھا کہ اب اس کے بعد یہ نہیں کہوں گا، لفظ شرم ناک عمران خان کی جانب سے استعمال کیا گیا، آپ بہت رسکی پوزیشن میں جا رہے ہیں۔
دوران سماعت عدالتی معاونین منیر اے ملک اور مخدوم علی خان نے عمران خان پر توہین عدالت کی کارروائی کی مخالفت کی۔
بعدازاں عدالت نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ دے دیا۔ عدالت وقفے کے بعد اپنا فیصلہ سنائے گی۔
وقفے کے بعد لارجر بنچ کے ججز کمرہ عدالت میں پہنچ گئے اور محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا جس کے مطابق عدالت نے عمران خان کا جمع کرایا گیا جواب غیر تسلی بخش قرار دے دیا۔
بنچ نے عمران خان پر توہین عدالت کے مقدمے میں فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ سنادیا، ان پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں ان پر دو ہفتے بعد فرد جرم عائد کی جائے گی، جب بھی کوئی سیاسی لیڈر عدالت آتا ہے ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے۔
پیشی سے قبل راستے میں صحافی میں سوال کیا کہ خبریں آرہی ہیں کہ حکومت آپ کو گرفتار کرنے کا پلان بنا رہی ہے جس پر عمران خان نے کہا کہ ایسی خبریں آتی رہتی ہیں، میں جیل جا کر زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا۔
سخت سیکیورٹی سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے کلبھوشں یادیو آرہا ہے، پتا نہیں انہیں کس چیز کا خوف ہے، بعد میں بات کریں گے کہیں کوئی غلط ٹکرز نہ چل جائے۔
عمران خان کی پیشی کے موقع پر آج کی سماعت کے لیے سیکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات کیے گئے، کمرہ عدالت میں وکلا سمیت کورٹ رپورٹرز کا داخلہ رجسٹرار آفس کے پاسز سے مشروط ہے۔
عمران خان کی پیشی کے موقع پر شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پولیس نے راستے میں کاروبار بند کرادیا جس پر جسٹس اطہر من اللہ نوٹس لیتے ہوئے سیکیورٹی اداروں کو عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے روکنے کا حکم دے دیا۔ سیکیورٹی اور جیمرز کی وجہ سے ہائی کورٹ اور اطراف میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہوگئی۔
چیف جسٹس نے رجسٹرار ہائیکورٹ، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی پولیس کو فوری ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ یقینی بنائیں کہ سیکیورٹی انتظامات کے دوران عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا نہ ہوں، ہائیکورٹ کی اطراف میں کاروباری مراکز کو بند نہ کیا جائے۔
دریں اثنا شوکاز نوٹس ملنے پر عمران خان نے گزشتہ روز دوسرا تحریری جواب جمع کرادیا تھا جس میں عمران خان نے جج سے متعلق کہے الفاظ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔
عمران خان کے ساتھ پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی موجود تھے جنہیں کمرہ عدالت میں جانے سے روک دیا گیا۔ رہنما مراد سعید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ہم ہائی کورٹ نہیں جا رہے بس اپنے لیڈر کو سپورٹ کرنے آئے ہیں، انہوں نے ادھر کرفیو لگایا ہوا ہے، ہماری اوپر امپورٹد حکومت مسلط ہے۔
مراد سعید نے کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی قیادت پر ایف آئی آرز درج کروا دیں، صحافیوں کو چپ کروا دیا، یوٹیوب بند کرادی، میڈیا کا بلیک آؤٹ کرکے آپ اپنا مذاق بنارہے ہیں، ہم جب بھی پولیس سے سوال کرتے ہیں یہ کہتے ہیں ہمیں اوپر سے آرڈر آیا ہے اور اسی طرح میڈیا والے بھی یہی کہتے ہیں۔