یہ تاثر درست نہیں کہ تمام فوجی سربراہان کے ساتھ میری مخالفت رہی، نوازشریف
لاہور: سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم کو روکنے کی ذمہ داری صرف ان کی نہیں ہے اور یہ تاثر بھی درست نہیں کہ پاک فوج کے تمام سربراہان کے ساتھ ان کی مخالفت یا مخاصمت رہی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر اپنے اس عزم کو دہرایا کہ وہ عوام کے ووٹ کے تقدس کو مجروح نہیں ہونے دیں گے اور اس کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ عوامی مینڈینٹ کو پامال کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ اداروں کے مابین ٹکراؤ کے حق میں نہیں ہیں۔ ٹکراؤ کے خلاف صرف مجھے ہی نہیں سب کو ہونا چاہیئے اور ٹکراؤ کی کیفیت پیدا نہیں ہونی چاہیئے اور اداروں کے مابین تصادم نہیں ہونا چاہیئے، یہ صرف میری اکیلے کی ذمہ داری نہیں، سب کی ذمہ داری ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ یہ تاثر ٹھیک نہیں ہے کہ ان کی فوج کے تمام سربراہوں کے ساتھ مخالفت رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کچھ (جرنیلوں) کے ساتھ یقیناً بنی بھی ہے، اچھی بنی ہے۔ اور میں یہ نے کبھی آئین سے انحراف نہیں کیا، جو قانون کہتا ہے اس کے مطابق چلا ہوں، اگر کوئی قانون کی حکمرانی یا آئین پر یقین نہیں کرتا تو میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملک کے ساتھ آمریت نے جو کیا، وہ پاکستان کی تباہی کا ایک نسخہ تھا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ جب پرویز مشرف نے مارشل لا لگایا تھا تو مشرف اور اس کے کچھ ساتھی میرے خلاف تھے لیکن باقی فوج میرے خلاف نہیں تھی، باقی فوج کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ مارشل لا لگ چکا ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب ہم نے اس مرض کی تشخیص کر لی ہے کہ جس کی وجہ سے ملک میں تمام مشکلیں اور مصیبتیں جھیلنی پڑی ہیں۔ اس کے لیے ملک کی ایک سمت کا تعین کرنا ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم ووٹ کے تقدس کا احترام کریں گے۔ اب وہ ووٹ کے تقدس کی بحالی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج نہیں ہے بلکہ ایک مہم ہے، میں یہ اس لیے نہیں کر رہا کہ میں دوبارہ منتخب ہو کر وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھوں، وہ پھولوں کا بستر نہیں کانٹوں کی سیج ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنا بذات خود ایک قربانی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان صاحب کے بارے میں کیا کہوں، ان کی باتوں کا جواب نہ دینا ہی اچھا ہے۔ آصف علی زرداری کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے کچھ نہیں مانگا اور نہ کوئی مانگنے کا ارادہ ہے۔
اداروں کے مابین گرینڈ ڈائیلاگ کے حوالے سے سینیٹ چیئرمین رضا ربانی کی تجویز پر نواز شریف نے کہا کہ یہ ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے کچھ دوستوں سے کہا ہے کہ وہ رضا ربانی کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور ان سے پوچھیں کہ ان کے ذہن میں اس کا کیا خاکہ ہے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے اور آج تک اس کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اس کی ایک خلاف ورزی ہوئی تھی جو ایک این آر او سائن ہوا تھا، مشرف اور کچھ فریقوں کے درمیان وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، وہ نہ ہوتا تو اچھا تھا۔
پاناما مقدمے کے حوالے سے نواز شریف کا کہنا تھا کہ 4 مہینے تک یہ مقدمہ چلا، پھر جے آئی ٹی بنی، یہ جے آئی ٹی کس طرح بنی اس کی ساری کہانی آپ کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی میں شامل لوگ ان کے بدترین مخالفین میں سے تھے۔ اس جے آئی ٹی کے سامنے ہمارا پورا خاندان پیش ہوا۔
نواز شریف نے اپنی نااہلی سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ہماری حکومت قائم ہوئے چار سال ہو گئے اور ہمارے پاس واضح مینڈیٹ تھا جب کہ پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر تھی اور اس نے دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگانا شروع کر دی جس میں طاہرالقادری بھی شامل ہو گئے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ دھرنوں سے ترقی کا پہیہ تقریبا جام ہو گیا اور دھرنے والے وزیراعظم ہاؤس، پالیمنٹ ہاؤس کے مرکزی دروازے اور دیگر اداروں کے سامنے پہنچ گئے تھے اور کہتے تھے کہ ہم وزیراعظم کو گلے میں رسہ ڈال کر وزیراعظم ہاؤس سے نکالیں گے، جمہوریت تو کیا آمریت بھی میں ہم نے ایسی مثالیں نہیں دیکھیں۔
نواز شریف نے کہا کہ یہ دھرنا ختم توا تو پاناما کا معاملہ سامنے آگیا جس میں انہوں (پی ٹی آّئی) نے دوبارہ دھرنا دینے کی کوشش کی، ان دنوں سی پیک کا معاملہ بری طرح متاثر ہوا لیکن اس کے باجود ملک نے ترقی کی۔ دھرنے کا مقصد شروع دن سے یہی تھا کہ نواز شریف کو ووٹ کیوں مل گیا ہے، کیوں یہ وزیراعظم بنا ہے اور اس کو وزیراعظم کی کرسی سے نیچے اتارا جائے۔ جہاں مقصد ہی یہ ہو وہاں باقی چیزوں کی کیا قیمت رہ جاتی ہے۔