پاکستان میں دہشتگردی کا گراف نیچے آیا ہے، آج ملک میں دہشتگردی کا کوئی نیٹ ورک موجود نہیں، چوہدری نثار
اسلام آباد: سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ اچھے کام کی ذمہ داری لینے کے لیے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں لیکن ہر غلط کام اور کوتاہی کی ذمہ داری وزارت داخلہ پر ڈالی گئی جب کہ استعفے کی وجوہات بیان کیں تو پارٹی کو نقصان ہوگا۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ میں کبھی اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بنا، اپنی وزارت کی کبھی تعریف نہیں کی جب کہ میں اپنی کارکردگی کو سیاست کی نذر نہیں ہونے دینا چاہتا۔ بہت سے ذی شعور لوگ مجھ پر تنقید کے تیر چلاتے رہے، وزارت داخلہ کے پاس کوئی ایگزیکٹو اتھارٹی نہیں ہے۔ وزارت داخلہ پالیسی بنانے والا ادارہ ہے، اچھے کام کی ذمہ داری لینے کے لیے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں لیکن غلط کام کی ذمہ داری وزارت داخلہ پر ڈالی گئی۔ چوہدری نثار نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات پر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی مذاکرات کے لیے تیار نہ تھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل ظہیرالاسلام طالبان سے مذاکرات میں آن بورڈ تھے جب کہ کراچی ائیر پورٹ پر حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ ڈان لیکس کے معاملے پر انکوائری حکومت کے حکم پر ہوئی جبکہ وزارت داخلہ کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ حکومت نے جو بھی انکوائری کروانی ہو، اس کا نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے۔ اس کمیٹی کے ممبران میں ریٹائرڈ جج، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ، ڈائریکٹر آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے تھے جو سینئر موسٹ تھے اور یہ وزارت داخلہ کے ماتحت نہیں تھے بلکہ ایف آئی اے کا جونیئر ترین آدمی وزارت دخلہ کے ماتحت تھا۔ اب یہ ذمہ داری گورنمنٹ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی رپورٹ کو پبلک کرنے یا نہ کرے۔ آئندہ جب حکومت کے کسی شخص سے آپ کا سامنا ہو تو اس سے پوچھئے گا البتہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رپورٹ شائع ہونی چاہئے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ خدا کیلئے میڈیا سیاستدانوں کو نشانہ نہ بنائے، پرویز مشرف کے معاملے پر کورٹ کے فیصلے کو پڑھیں، سابق صدر کو عدالت کی جانب سے حکم موصول ہونے پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے کہاکہ میں نے مشرف کے بیرون ملک جانے پر یہ بات نہیں کی تھی کہ وہ تین ہفتوں میں واپس آجائیں گے، ضمانتیں عدالتیں لیتی ہیں وزارت داخلہ کسی کی ضمانت نہیں لیتی۔ ایک سوال کے جواب میں سابق وزیرداخلہ نے کہاکہ مشرف کی واپسی سے متعلق ٹرائل کورٹ لکھے گا تو ریڈوارنٹ جاری ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 3 سالوں میں ملک کے حالات میں تبدیلی آئی ہے اور آج ملک میں دہشت گردوں کا کوئی نیٹ ورک موجود نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری مراحل میں ہے، پاکستان آج ان ممالک میں ہے جہاں دہشت گردی کا گراف نیچے آیا ہے۔
سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ انہوں نے صدق دل سے کوشش کی کہ ملک کی سکیورٹی میں بہتری آئے، تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئیں تو کراچی کے حالات اور دہشت گردی کے خلاف صورت حال میں بہتری آئی ہے جب کہ کراچی آج ایک شخص کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ میں نے 32 ہزار پاسپورٹس منسوخ کیے، 10 ہزار سے زائد لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکالے، اب ملک میں تمام ویزے سکیورٹی کلیئرنس ملنے کے بعد جاری ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں 400 کے قریب غیر ملکیوں کے گھر ایسے تھے جو اپنے آپ کو رجسٹر نہیں کرانا چاہتے تھے تاہم 24 گھنٹے کے اندر ان غیر رجسٹر گھروں کو خالی کرایا جب کہ اب اسلام آباد میں رہنے والے تمام غیر ملکی افراد کا ریکارڈ وزارت داخلہ کے پاس موجود ہے۔ پہلے سفارش سے ویزے دیے جاتے تھے، پاکستان نہ تو بنانا ری پبلک ہے اور نہ ہی اب کسی کو ایئرپورٹ پر ویزا مل سکتا۔ سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ میں نے کبھی سیاست چھوڑنے کا نہیں کہا، شاید میرے سمجھانے میں مسئلہ ہوا جب کہ یہاں خود سے کونسلر شپ نہیں چھوڑی جاتی میں نے وزارت داخلہ سے خود کو الگ کیا۔ میں نے اختلاف رائے کی وجہ سے خود کو الگ کیا جب کہ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے آخری وقت تک کوشش کی کہ میں وزارت داخلہ کا منصب دوبارہ سنبھال لوں۔