الجزائر، درسی کتب سے بسم اللہ غائب، عوام سراپا احتجاج
الجزائر کے آزاد ہونے کے بعد ملک میں پہلی مرتبہ رواں سال تعلیمی نصاب کی نئی کتابیں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی عبارت سے خالی ہیں۔ اس اقدام نے ملک میں وسیع پیمانے پر تنازع برپا کر دیا ہے بالخصوص دو روز قبل مسلم علماء ایسوسی ایشن کی جانب سے وزارت تعلیم کے اس فیصلے کی مذمت کے بعد عوام میں غم و غصے کی لہر شدید ہو گئی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق الجزائر کی وزیر تعلیم نوریہ بن غبریت نے شروع ہونے والے تعلیمی سال کے لیے سکول کی کتابوں سےبسم اللہ کو حذف کر دیے جانے کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلامیات کی کتابوں میں بسم اللہ لازم ہونے کے سبب موجود ہے، تاہم جہاں تک بقیہ درسی کتب سے اس کے حذف کرنے کا تعلق ہے تو اس کی ذمے داری کتابوں کی ڈیزائننگ اور طباعت کے نگراں حضرات پر عائد ہوتی ہے۔ الجزائر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اور مذہبی اداروں نے اس فیصلے کی سخت مذمت کی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی مذہبی انجمن مسلم علماء ایسوسی ایشن نے اس فیصلے کو بچوں کے ذہنوں اور قوم کی شناخت پر حملہ اور الجزائر کے عوام کی شخصیت اور ان کے عقیدے کو نقصان پہنچانے والا قرار دیا۔ ایسوسی ایشن کے مطابق چار دہائیوں سے ملک کے صدر کی تقریروں اور تمام درسی تالیفات کی ابتدا بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہو رہی ہے۔ انجمن نے حکام پر الزام عائد کیا کہ وہ بچوں کو غیر مذہبی اقدار پر پروان چڑھانے کے لیے کوشاں ہے جو ان کے اخلاق کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گی۔ ایسوسی ایشن نے استفسار کیا کہ بسم اللہ کو حذف کرنے کے اقدام کے پیچھے کیا مقصد اور ایجنڈا چھپا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم الجزائری حلقوں نے اس فیصلے کا مقصد تمام تعلیمی پروگراموں کو دینی مواد سے خالی کرنا اور بچوں کو ان کی مذہبی شناخت سے دور کرنا ہے۔ ان حلقوں نے سرپرستوں ، والدین اور تعلیمی شعبے کے ذمے داران سے مطالبہ کیا کہ وہ پڑھائی کے آغاز سے قبل بچوں کی کتابوں میں بسم اللہ کا اضافہ کریں۔