سوچی کا روہنگیا نسل کشی پرعالمی دباؤ قبول کرنے سے صاف انکار
ینگون: میانمار کی خاتون رہنما آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ وہ روہنگیا کے موجودہ بحران پر بین الاقوامی تحقیقات سے باالکل خوفزدہ نہیں ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر عالمی تنقید اور دباو کے بعدآنگ سان سوچی نے خاموشی توڑتے ہوئے ملک کی موجودہ صورتحال پر بالآخربول پڑیں۔ آنگ سان سوچی نے ممکنہ تنقید سے بچنے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھااورانہوں نے روہنگیا بحران سے اقوام عالم کو آگاہ کرنے کے لیے قوم سے خطاب کا سہارا لیا۔
آنگ سان سوچی نے ریاست رخائن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور غیر قانونی تشدد کی مذمت کی لیکن روہنگیا مسلمانوں پر فوجی مظالم کے خلاف بات تک نہ کی۔ انہوں نے کہا کہ 5 ستمبر کے بعد سے رخائن میں کوئی مسلح تصادم نہیں ہوا۔ رخائن میں تمام گروپوں کی تکلیفیں میانمار بھی محسوس کرتا ہے اور حکومت امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرکے قانون کی بالادستی قائم کرنے کےلیے پرعزم ہے۔
سوچی نے کہا کہ ہمیں بنگلادیش نقل مکانی کرنےوالوں پر تحفظات ہیں مسلمانوں کی بڑی تعداد میانمار چھوڑ کرنہیں گئی اور اب بھی لاکھوں روہنگیا یہاں موجود ہیں۔ وہ روہنگیا بحران کی تفتیش کے عالمی دباؤ پر کسی قسم سے خوفزدہ نہیں ہیں اور غیرملکی سفرا میانمار آکر صورتحال کا جائزلے سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ 21اگست کے بعد سے روہنگیاں مسلمانوں کے قتل عام اور 4لاکھ روہنگیا افراد کی نقل مکانی کرکے بنگلادیش میں پناہ لینے کے انسانی المیہ پر سوچی نے پہلی بار کسی فورم پر آکر حکومتی موقف دیا ہے۔