یونان کے سمندر میں کشتی ڈوبنے کے حادثے میں لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن جاری ہے، اب تک 78 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں جبکہ 104 افراد کو زندگی بچالیا گیا۔ بچ جانے والوں کا کہنا ہے، اموات 500 سے زائد ہوسکتی ہیں، مرنیوالوں میں درجنوں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ یورپی حکام اسے بحیرہ روم کی تاریخ کا بدترین حادثہ قرار دے رہے ہیں۔
یونانی حکام کے مطابق بحیرہ روم میں ڈوبنے والی کشتی میں 500 سے 700 افراد سوار تھے، فوجی طیارے، ہیلی کاپٹر اور 6 کشتیوں کے ساتھ ریسکیو آپریشن جاری ہے، ریسکیو اہلکاروں نے 104 افراد کو سمندر سے زندہ نکال لیا۔
رپورٹ کے مطابق اب تک 78 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں، باقی افراد کی تلاش جاری ہے، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ زندگی کی امید دم توڑ رہی ہے۔
کشتی حادثے میں مرنے والوں میں درجنوں پاکستانی بھی شامل ہیں جبکہ کشتی پر شام، مصر اور کئی دیگر ملکوں کے تارکین وطن بھی سوار تھے۔
یونان میں پاکستانی سفارتخانہ نے متعلقہ پاکستانیوں سے لاپتہ افراد کی شناخت میں مدد کی اپیل کی ہے، شناخت کیلئے صرف والدین یا بچوں کا ڈی این اے نمونہ فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یونان میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عملے نے واقعے میں زندہ بچ جانیوالے 12 پاکستانیوں سے ملاقات کی ہے جبکہ لاشوں کی شناخت کیلئے ڈی این اے رپورٹ، لاپتہ افراد کا شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور رابطہ نمبر سفارتخانے کی آفیشل ویب سائٹ پر بھیجنے کا کہا گیا ہے۔
لاپتہ پاکستانی شہری 25 سالہ شہریار سلطان کے والد کا کہنا ہے، بیرون ملک جانے کے خواب دکھا کر بچوں کو والدین سے جدا کرنے والوں کو کڑی سزا ملنی چاہئے۔
انہوں نے بتایا اٹلی کیلئے کشتی میں بیٹھنے سے قبل شہریار 2 دن دبئی، 6 دن مصر اور 4 ماہ لیبیا میں رہا۔
بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ کشتی میں سیکڑوں بچے بھی تھے، مرنیوالوں کی تعداد 500 تک ہوسکتی ہے۔
یونانی سیکیورٹی حکام نے انسانی اسمگلنگ کے الزام میں 9 مصری شہریوں کو گرفتار کرلیا ہے۔
کوسٹ گارڈ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کشتی حادثہ فیول ختم ہونے یا انجن میں خرابی کے باعث پیش آیا ہو۔