قومی اسمبلی نے سیکریٹ ایکٹ ترامیم کا بل منظور کرلیا
ایکٹ کے تحت زمانہ جنگ کے ساتھ زمانہ امن کو بھی شامل کرنے کی تجویز ہے
اسلام آباد: سیکرٹ ایکٹ 1923ء میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جسے ایوان نے منظور کرلیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرام درانی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضٰی جاوید عباسی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جسے ایوان نے منظور کرلیا۔ وفاقی وزیر نے اسے ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا۔
بل کے مندرجات کے تحت تحریر شدہ، غیر تحریر شدہ، ورچوئل، الیکٹرانک یا ڈیجیٹل مسودے کو بھی دستاویز میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ملٹری استعداد اور صلاحیت یا اسلحہ، گولہ بارود کی خرید و فروخت سے متعلق معاملات کو بھی ایکٹ میں شامل کرنے، انٹیلی جنس ایجنسی کی تعریف میں آئی بی کے ساتھ آئی ایس آئی کو بھی شامل کرنے، ممنوعہ مقامات کی تعریف میں دفاع پاکستان سے متعلق دفاتر، کیمپ آفسز اور عمارت کے کسی بھی حصے کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ایکٹ کے تحت زمانہ جنگ کے ساتھ زمانہ امن کو بھی شامل کرنے کی تجویز ہے، بل کے تحت حکومت کو کسی بھی اہم بنیادی ڈھانچے کو نوٹی فکیشن کے ذریعے ممنوعہ علاقہ قرار دینے کا اختیار دینے کی تجویز ہے، ذرائع مواصلات میں بری اور بحری راستوں کے ساتھ فضائی راستے بھی شامل کرنے کی تجویز ہے۔
مسلح افواج کی جانب سے وار گیمز، مشقوں، تربیت، تحقیق یا ترقی، افواج کی نقل و حرکت، ان کیمرا بریفنگ کے لیے عارضی طور پر استعمال کیے جانے والے مقامات کو بھی ممنوعہ مقام قرار دینے کی تجویز ہے، اندرون یا بیرون ملک محفوظ معلومات یا اثاثوں کے حامل کسی بھی مقام، اراضی، عمارت یا جائیداد کو ممنوعہ مقام قرار دینے کی تجویز ہے۔
کوئی بھی ایسا مقام جس تک رسائی یا اس کا استعمال پاکستان کے مفادات یا تحفظ کے خلاف ہو اسے ممنوعہ مقام قرار دیا جا سکے گا، کوئی بھی شخص جو بالواسطہ یا بلاواسطہ، ارادتاً یا غیر ارادی طور پر کسی غیر ملکی قوت، ایجنٹ، غیر ریاستی عناصر، اداروں یا گروپ کے لیے کام کرے گا اسے دشمن سمجھا جائے گا۔
کسی بھی ممنوعہ قرار دیے گئے مقام، انفارمیشن سسٹم، نیٹ ورک یا ڈیٹا تک براہ راست، الیکٹرانک یا ورچوئل رسائی کو غیر قانونی رسائی تصور کیا جائے گا، ممنوعہ قرار دیے گئے مقام تک رسائی، اس میں داخلہ، حملہ کرنا، تباہی پھیلانا جرم تصور کیا جائے گا۔
ممنوعہ قرار دیے گئے مقام کا اسکیچ بنانا، پلان یا ماڈل تیار کرنا جس سے دشمن کو فائدہ پہنچ سکے قابل سزا جرم تصور کیا جائے گا، کوئی بھی سرکاری کوڈ یا پاس ورڈ، الیکٹرانک ڈیوائس حاصل کرنا، ریکارڈ شائع کرنا یا کسی کو بتانا جرم تصور کیا جائے گا۔
کسی الیکٹرانک ڈیوائس کے ذریعے یا اس کے بغیر پاکستان کے اندر یا باہر سے دستاویز یا معلومات تک غیر قانونی رسائی حاصل کرنا جرم تصور کیا جائے گا۔
فورسز کی استعداد، اسلحہ یا آلات کی ایجاد، تحقیق، ترقی، پیداوار، مینٹی ننس، آپریشن یا اسٹوریج سے متعلق معلومات حاصل کرنا یا کسی کو بتانا جرم تصور کیا جائے گا۔
پاکستان کے اندر یا باہر کسی بھی فارن ایجنٹ کے پتے پر جانے یا اس سے منسلک ہونے کو دشمن سے رابطہ سمجھا جائے گا۔ پاکستان کے اندر یا باہر کسی بھی شخص سے دشمن یا فارن ایجنٹ کا نام یا پتا ملنے کی صورت میں بھی اسے دشمن سے رابطے میں سمجھا جائے گا۔
خفیہ اداروں سے منسلک اہل کاروں، مخبر یا ذرائع کی شناخت ظاہر کرنے والے کو مجرم تصور کیا جائے گا۔ شناخت ظاہر کرنے والے کو تین سال تک قید یا 10 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔ شناخت ظاہر کرنے والے کی معاونت کرنے، سازش کرنے یا شناخت ظاہر کرنے کی کوشش کرنے والے کو بھی یہی سزا دی جا سکے گی۔
ایکٹ کے تحت کوئی بھی جرم سرزد ہونے یا جرم کا شک ہونے پر خفیہ ادارے کسی بھی مقام یا شخص کی بغیر وارنٹ تلاشی لے سکیں گے۔
ایکٹ کے تحت گرفتار کیے گئے شخص یا قبضے میں لیے گئے سامان کو خفیہ ادارے کا افسر تحقیقاتی افسر یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو دینے کا پابند ہوگا۔ ایکٹ کے تحت تفتیشی افسر ایف آئی اے کا گریڈ 17 یا اس سے زائد کا افسر ہوگا۔
ایکٹ کے تحت تفتیشی افسر یا جے آئی ٹی 13 روز کے اندر تحقیقات مکمل کرنے کے پابند ہوں گے۔