داعش کے ‘وزیرِ جنگ’ کی ہلاکت کا دعویٰ
امریکا کی جانب سے شام میں امریکی فضائی کارروائی کے دوران شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے اہم کمانڈر ابو عمر الششانی کی ہلاکت کا امکان ظاہر کیا گیا ہے.
مذکورہ کمانڈر کو پینٹاگون کی جانب سے داعش کا ‘وزیرِ جنگ’ قرار دیا گیا تھا.
ابو عمر الششانی، امریکا کو مطلوب عسکریت پسندوں کی فہرست میں شامل تھے، جن کی اطلاع دینے پر 5 ملین ڈالر رقم کی پیشکش کی گئی تھی.
وہ روس میں بھی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھے.
کہا جاتا ہے کہ داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی، الششانی پر کافی بھروسہ کرتے تھے.
ایک امریکی عہدیدار کے مطابق شام کے قصبے الشدادی کے قریب الششانی کو نشانہ بنایا گیا.
پینٹاگون ترجمان پیٹر کک کے مطابق ‘جارجیا سے تعلق رکھنے والے الششانی شام میں مقیم تھے، جو داعش کے وزیرِ جنگ ہونے کے ساتھ ساتھ گروپ میں متعدد عسکری پوزیشنز کے حامل تھے’.
پینٹاگون کا ماننا ہے کہ شام میں امریکا کی اتحادی افواج کے ہاتھوں شکست کے بعد الششانی کو داعش کی مدد کے لیے بھیجا گیا.
پیٹر کک نے بتایا کہ امریکی فوج فضائی کارروائی کے نتائج کا جائزہ لے رہی ہے، لیکن ہمیں اندازہ ہے کہ اس کے نتائج اہمیت کے حامل ہوں گے.
ترجمان کا کہنا تھا کہ الششانی کی ہلاکت سے حملوں کے لیے داعش کی رابطوں اور اپنے مضبوط ٹھکانوں کی حفاظت کی صلاحیت متاثر ہوگی جبکہ اس سے داعش کی غیر ملکی جنگوؤں کو بھرتی کرنے کی صلاحیت کو بھی نقصان پہنچے گا.
متعدد امریکی عہدیداران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس امید کا اظہار کیا کہ حملہ کامیاب تھا، تاہم کوئی بھی الششانی کی ہلاکت کی یقینی طور پر تصدیق کرنے کے لیے تیار نہیں تھا.
ایک عہدیدار نے بتایا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق داعش کے 12 جنگجوؤں کے ساتھ الششانی کی بھی ہلاکت کا امکان ہے.
شام میں کردش وائی پی جی ملیشیا کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انھیں الششانی کی ہلاکت کی اطلاعات ملی ہیں تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں ہیں.
واضح رہے کہ داعش نے جون 2014 میں شام اور عراق میں وسیع رقبے پر قبضہ کرکے وہاں خود ساختہ خلافت کے قیام کا اعلان کیا تھا اور ابوبکر البغدادی کو اپنا خلیفہ مقرر کیا تھا۔
جس کے بعد امریکا نے اگست 2014 میں داعش کے خلاف فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں اب فرانس، جرمنی اور برطانیہ بھی شامل ہو چکے ہیں۔