عمران خان اور جہانگیر ترین کا فیصلہ ایک ساتھ کریں گے، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں نااہلی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے مقدمات کا فیصلہ ایک ساتھ کرینگے.جہانگیرترین کے وکیل قانون موشگافیوں سے کام لے کر جان چھڑوانا چاہتے ہیں ۔جسٹس عمر عطا بندیا ل نے کہاکہ بظاہر وکیل کے پاس تکنیکی پوائنٹ ہے. میرٹ پر کہنے کو کچھ نہیں ۔تاہم جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمندنے موقف اپنایاہے کہ غلط قانون کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں سنائی جاسکتی اگر کوئی قانون غلط ہو اعدالت اسکا جائزہ لے سکتی ہے کیونکہ عدالت آئین کی محافظ ہے اور عدالت کسی فراڈ قانون سازی پر ازخود نوٹس لے سکتی ہے ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے کہاکہ عمران خان اور جہانگیرترین کی نااہلی کے دونوں مقدمات کوگہرائی سے دیکھ رہے ہیں۔دونوں مقدمات کا فیصلہ ایک ساتھ کریں گے۔چیف جسٹس نے کہاکہ انہوں نے 26 اکتوبر سے سارک کانفرنس کے کیے سری لنکا جانا ہے۔ اس دوران درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان عدالت سے چاند مانگ رہے ہیں اورعمران خان نے عدالت میں خو موقف تبدیل کرنے کی درخواست دی ہے عمران خان کی درخواست پر تحریری جواب دوں گا۔ جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمندنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ اگرجہانگیر ترین نے ان سائیڈ ٹریڈ سے کچھ کمایا تو نقصان کس کا ہوا ؟جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ جس کمپنی کے شیئر خریدے جہانگیر ترین اس کمپنی میں کیا تھے؟سکندر بشر نے جواب دیا کہ جہانگیر ترین چیف ایگزیکٹو کے عہدے سے مستعفی ہو کر بورڈ کے ممبر بن گئے تھے اور اس ضمن میں جہانگیر ترین کو کبھی شوکاز نوٹس بھی جاری نہیں کیا گیا چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنی ڈائریکٹر کے طور پر جہانگیر ترین نے اپنے ڈرائیور کے نام پر حصص خریدے سکندر بشیرنے اعتراف کیاکہ االلہ یار جہانگیر ترین کے 1975 سے ملازم ہیں لیکن یہ غلط ہے کہ اللہ یار اور حاجی خان باورچی اور مالی ہیں یہ دونوں افراد جہانگیرترین کے پرانے ملازم ہیں چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کمپنی کے شیئرز کی خریداری کے لیے کتنی رقم خرچ ہوئی، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ شیئرز کے لیے کتنی رقم لگائی گئی اور اللہ یار نے کتنی رقم کے شیئر خریدے؟ سکندر بشیر نے جواب دیا کہ اللہ یار نے 13ملین کے شیئر خرید کر 46ملین میں فروخت کیے۔ اوران سائیڈ ٹریڈ سے اللہ یار کو 33 ملین کا نفع ملا اورایس ای سی پی نے ان سائیڈ ٹریڈ کا نفع واپس لے لیا تھا چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ جہانگیرترین پر الزام ہے کہ کمپنی سے متعلق انہیں معلومات تھیں ۔ سکندر نے کہاکہ جہانگیرترین جے ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر تھے اور حصص کی خریداری کے وقت جہانگیرترین وزیر نہیں تھے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ مخصوص معلومات کو جہانگیرترین نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ، کیا عہدے کی بنیاد پر معلوم معلومات کوذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا درست ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا جہانگیرترین کا اقدام شفاف اور درست تھا؟ اس پر سکندر بشیر نے کہاکہ درخواست گزار مبینہ اعتراف پر کاروائی چاہتے ہیں تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ اعتراف کا مطلب سزا یافتہ نہیں ہوتا،فاضل وکیل نے کہا کہ جہانگیرترین کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی دوسرے شہری کو حاصل ہیں،اس لئے عدالت کے سامنے اپنی گزارشات اور مفروضات پیش کر رہا ہوں جس پر چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ آپ قانون کی موشگافیوں کاسہارا لیکر جان چھڑانے کے لیے ہاتھ پاﺅں مار ہے ہیں ۔جس پر وکیل نے کہاکہ ہاتھ پاﺅں مارنے کا لفظ درست نہیں میرے موکل کو دفاع کاآئینی حق حاصل ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی اینڈایکسچینج کمیشن قانون کی شق 15اے، 15ای کا آرٹیکل 73 سے کوئی تعلق نہیں ، 15اے، 15ای شقوں کا ایمانداری سے کوئی تعلق نہیں جس پر اکرم شیخ نے کہاکہ جہانگیرترین نے اپنے تحریری جواب میں دونوں شقوں کو چیلنج نہیں کیا سکندر بشیر نے کہاکہ دونوں سیکشن منی بل کا حصہ نہیں تھے جس پر جسٹس عمر عطا بندیا ل نے کہاکہ بظاہر آپ کے پاس تکنیکی پوائنٹ ہے، میرٹ پر آپکے پاس کہنے کو کچھ نہیں ۔ سکندر بشیر نے کہاکہ گر کوئی قانون غلط ہے تو کیاعدالت اسکا جائزہ نہیں لے سکتی؟ عدالت آئین کی محافظ ہے اس لئے عدالت کسی فراڈ قانون سازی پر ازخود نوٹس لے سکتی ہے جسٹس عمر نے کہاکہ کیاآپکے مطابق آرٹیکل 73ٹیکس سے متعلق ہے؟ سکندر بشیر نے جواب دیا کہ سیکشن 15اے اور15ای کامنی بل سے کوئی واسطہ نہیں سیکورٹی ایکسچینج شقوں کے تحت جہانگیر ترین سے رقم واپس لی گئی اوریہ دونوں شقیں آئین سے متصادم ہیں۔وکیل جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کو ایسے قانون کے تحت قصور وار قرار نہیں دیا جا سکتا جو غیر قانونی ہے۔سماعت جاری تھی کہ عدالتی وقت ختم ہونے پر سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔