میانمار میں آنگ سان سوچی صدارت کی دوڑ سے باہر
میانمار میں صدارتی انتخابات کے عمل کے لیے نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے اپنے جن امیدواروں کو نامزد کیا ہے اس میں پارٹی کی سربراہ آنگ سان سو چی کا نام شامل نہیں ہے۔
نامہ نگاروں کے مطابق چونکہ پارلیمان میں این ایل ڈی کی اکثریت ہے اس لیے ان دونوں میں سے ایک شخص ’ہیٹن کیوا‘ کا صدر بننا تقریباً طے ہے۔
ان دو افراد کی نامزدگی سے اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ پارٹی کی سربراہ آنگ سان سوچی ملک کی صدر نہیں ہوں گی۔
حالانکہ محترمہ سو چی نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہوتی ہیں تو ان کی حیثیت ’صدر سے بالا تر ہوگی۔‘
پارٹی نے ہیٹن کیوا کو ایوان زیریں کے لیے نامزد کیا ہے جو آنگ سان سو چی کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ ہینری وان نامی چن نسل کے ایک دوسرے رکن پارلیمان کو پارٹی نے ایوان بالا کے لیے نامزد کیا ہے۔
پارلیمان کے دونوں ایوان کو دوسری جماعتوں کے امیدواروں کے ساتھ ہی اپنے اپنے نمائندوں کو منتخب کرنا ہے
دونوں ایوانوں میں کامیاب ہونے والے دو نمائندے صدر کے انتخاب کے لیے دوبارہ ووٹ ڈالیں گے۔ اس مقابلے میں فوج کی جانب سے نامزد کیا گیا امید وار بھی انتخاب میں شامل رہے گا۔
دو ہارنے والے امید وار نائب صدر کے عہدے کے لیے مقرر کیے جائیں گے۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ہی ایوانوں میں این ایل ڈی کی اکثریت ہے اس لیے ہیٹن کیوا کی کامیابی تقریباً یقینی ہے۔
گذشتہ برس کے عام انتخابات میں این ایل ڈی نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن ملک کا آئین کچھ اس طرح کا ہے کہ پارٹی کے سربراہ آنگ سان سو چی کا صدر بننا پہلے ہی سے مشکوک تھا۔
میانمار کے آئین کے تحت آنگ سوچی ملک کی صدر نہیں بن سکتیں کیونکہ آئین میں درج ہے کہ غیر ملکی بچوں کے والدین ملک کے صدر کا عہدہ نہیں سنبھال سکتے۔ آنگ سو چی کے شوہر برطانوی شہریت کے حامل تھے اور ان کے بچے بھی برطانوی شہریت رکھتے ہیں۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ آئین میں یہ شق سوچی کو عہدہ صدارت سے دور رکھنے کے لیے ہی شامل کی گئی تھی