دنیا

روحانی پیشوا شری روی شنکر کو ’جیل بھیجا جائے

بھارتی دارالحکومت دہلی میں دریائے جمنا کے کنارے جمعے سے شروع ہونے والے روحانی گرو شری شری روی شنکر کے پروگرام پر پارلیمان میں زبردست ہنگامہ ہوا ہے۔

پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں جنتا دل (يونائٹڈ) کے رہنما شرد یادو نے کہا کہ پروگرام کے حوالے سے مسٹر شری روی شنکر پر جو جرمانہ عائد کیا گیاتھا اسے انھوں نے ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انھوں نے پوچھا ’کیا وہ نظام سے بالا تر ہیں؟‘

انھوں نے اس معاملے میں حکومت پر ملی بھگت کا الزام لگاتے ہوئے مسٹر روی شنکر کو جیل بھیجنے کا مطالبہ کیا۔

کانگریس پارٹی کے رہنما جے رام رمیش نے کہا کہ دریائے جمنا کے کنارے اتنے بڑے پروگرام سے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے

لیکن پارلیمانی امور کے وزیر مملکت مختار عباس نقوی نے کہا کہ اپوزیشن ارکان تعصب کا شکار ہیں۔ انہھوں نے کہا کہ اس مسئلے پر سیاست نہیں کی جانی چاہیے۔

بھارت کے معروف گرو شری شری روی شنکر دہلی میں دریائے جمنا کے کنارے جمعہ سے ’ورلڈ کلچر فیسٹیول‘ کے نام سے ایک تین روز پروگرام کر رہے ہیں۔

ماحولیات کے لیے کام کرنے والے کارکنان نے دریائے اس سے جمنا کے ماحول کو نقصان پہنچانے کا حوالہ دے کر نیشنل گرین ٹریبیونل (اے این جي ٹي) میں چیلنج کیا تھا۔

اے این جے ٹی نے اس پر سماعت کے بعد گرو کی مشہور تنظیم ’آرٹ آف لِونگ‘ دہلی کے آلودگی کنٹرول بورڈ اور ڈیلہی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی پر پانچ کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کرتے ہوئے پروگرام کی اجازت دی تھی۔

لیکن آرٹ آف لِونگ کے سربراہ گرو شری روی شنکر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ بطور جرمانہ ایک پیسہ نہیں ادا کریں گے اور جیل جانے کے لیے تیار ہیں

ٹرییبونل میں سماعت کے دوران آرٹ آف لِونگ نے کہا تھا کہ وہ خیراتی ادارہ ہیں اور اتنے کم وقت میں پانچ کروڑ روپے جمع کرنا ان کے لیے مشکل ہے۔

ٹرییبونل نے کہا تھا کہ جرمانے کی رقم سے اس علاقے کو بائيوڈائیورسٹي پارک کے طور پر تیار کیا جانا چاہیے۔

اس سے پہلے اے این جي ٹي نے پانچ کروڑ روپے کا جرمانہ ادا کرنے کی ڈیڈ لائن کو جمعے تک کے لیے بڑھا دیا تھا۔

پہلے اس نے یہ حکم دیا تھا کہ یہ پیسے جمعرات شام تک جمع کرائے جائیں، ورنہ جمنا کے کنارے پر ’ورلڈ کلچر فیسٹیول‘ کے انعقاد کی اجازت منسوخ کی جا سکتی ہے۔

دہلی میں جمنا ندی کے کنارے 11 سے 13 مارچ کے درمیان ورلڈ کلچر فیسٹیول منعقد کیا جا رہا ہے جس میں بہت سے ممالک سے لاکھوں لوگوں کے شامل ہونے کا امکان ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close