اداکارہ جیوتی کرشنا کی جعلی فحاش تصاویر ویب سائیٹ پر لوڈ کرنے پر پولیس میں کمپلین
اداکارہ جیوتی کرشنا کے فیس پک پر تقریباً 15 لاکھ مداح ہیں انڈیا میں اداکاراؤں کے چہروں کی تصاویر کو فوٹو شاپ کے عمل کے ذریعے انھیں برہنہ جسم کے ساتھ جوڑنے کے واقعات سے تنگ آکر جنوبی انڈیا کی ایک ادکارہ نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فیس بک پر کہا ہے کہ ان کی ایسی تصویر شیئر کرنے والے انھیں شرمندہ کرنےمیں ناکام رہے ہیں۔ جیوتی کرشنا انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کی فلم انڈسٹری کی مشہور اداکار ہیں۔ کیرالہ کی فلم انڈسٹری ممبئی کی بالی وڈ کے مقابلے میں نسبتا قدامت پسند اور چھوٹی ہے جہاں زیادہ تر فلمیں ملیالم زبان میں بنتی ہیں۔ لیکن پھر بھی وہاں ہر سال 200 کے قریب فلمیں تیار ہوجاتی ہیں۔انڈیا کے جنوبی حصے سے تعلق رکھنے والی اداکارائیں شازو نادر ہی جدید فیشن کے کھلے لباس پہن کر فوٹو شوٹ کرواتی ہیں، اسی لیے ان کے کچھ مداح ان اداکاراؤں کے چہرے کی تصاویر کو برہنہ یا ’پورنو گرافک‘ تصاویر کے ساتھ جوڑ کر ان کو پڑے پیمانے پر واٹس ایپ پر شیئر کردیتے ہیں۔ جیوتی کرشنا، جن کے فیس پک پر تقریباً 15 لاکھ مداح ہیں، اس عمل پر ملیالم زبان میں لکھتے ہوئے کہتی ’میں سوشل میڈیا پر شکار ہونے والے اپنی طرح کے دیگر افراد کے حق میں بھی بات کررہی ہوں، تاکہ ان میں بھی ان مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانےکی ہمت پیدا ہو۔‘ PA ایک پولیس رپورٹ کے مطابق بھارت میں انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کی جانے والی پورنو گرافک تصاویر کی ایک چوتھائی تعداد کا تعلق کیرالہ سے تھا ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا کہ ’مجھے اس تصویر کے بارے میں میرے ایک ہمدرد دوست نے بتایا، جو خود بھی ایک مشہور فلم ہدایت کار ہیں۔ اس کے بعد میرے کئی دوستوں اور رشتہ داروں نے مجھے پیغامات دینا شروع کردیے کہ تمہاری تصویر سوشل میڈیا پر تیزی سے شیئر کی جارہی ہے۔‘یہ مسئلہ اپنی نوعیت کا واحد مسئلہ نہیں ہے۔ جیوتی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی فوٹو شاپ والی تصاویر شیئر کرنا صرف کیرالہ ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے، جس کے خلاف انھوں نے پولیس میں شکایت بھی درج کروادی ہے۔گذشتہ سال کیرالہ سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں پر ایک اور ملیالم اداکارہ آشا سراتھ کی نقلی تصویر واٹس ایپ اور فیس بک پر شیئر کرنے کے بعد سائبر کرائم کے قانون کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ ایک 19 سالہ نوجوان کو کیرالہ کی ٹیلیویژن اداکارہ گائتری ارون کی ایک نقلی اور قابل اعتراض تصویر کو انٹرنیٹ پر شیئر کرنے کی جرم میں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔اس مسئلے پر کام کرنے والے مقامی ماہر نفسیات ڈاکٹر سی پی سومناتھ کا کہنا ہے کہ کیرالہ میں خواندگی کے زیادہ تناسب ہونے اور موبائل فون اور کمپیوٹر کے وسیع استعمال کی وجہ سے بہت سے نوجوان انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرکے لوگوں کی تصاویر تبدیل کرنے کا طریقہ بھی سیکھ لیتے ہیں۔ ملیالم زبان میں ہر سال ہر سال 200 کے قریب فلمیں تیار ہوتی ہیں سومناتھ نے کہا کہ ’ان ریاستوں میں لوگوں کی سوچ ابھی بھی قدامت پسند ہے۔اس ہی لیے کیرالہ سے تعلق رکھنے والی اداکارائیں اپنی بالی وڈ اور ہالی وڈ کی ساتھی ادکاراؤں کی طرح ایسے کردار ادا نہیں کرتیں اور نہ ہی ایسی تصاویر کھنچواتی ہیں جس میں ان کے جسم کی نمائش ہو۔‘’اور ممکن ہے جنسیت کے بارے میں اس ہی روک ٹوک اور تجسس کے نتیجے میں ریاست کے ایک مخصوص عمر کے نوجوانوں میں انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی سدھ بدھ حاصل کرنے کے بعد اس طرح کی تصاویر بنانے اور انھیں شیئر کرنے کا رحجان پیدا ہوا ہو۔‘سنہ 2012 کی ایک پولیس رپورٹ کے مطابق بھارت میں انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کی جانے والی پورنو گرافک تصاویر کی ایک چوتھائی تعداد کا تعلق کیرالہ سے تھا۔ بھارت کے جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے قومی بیورو نے بتایا کہ اس ہی سال ریاست میں 18 سال سے کم عمر کے نوجوانوں کی سب سے بڑی تعداد کو ملک کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے قانون کو توڑنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔