دنیا

مودی کے سامنے نیا انتخابی چیلنج

انڈیا کی پانچ ریاستوں میں آئندہ ماہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ انتخابات حکمراں بی جے پی کے لیے دو جوہات سے بہت اہم ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ ان میں سےایک بھی ریاست میں بھی بی جے اقتدار میں نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ بی جے پی ایک طویل عرصے سے ان ریاستون میں اپنا سیاسی قدم جمانے کی کوشش کررہی ہے۔

ان انتخابات میں یہ اندازہ ہو سکے گا کہ مرکز میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت قائم ہونےسے بی جےپی کوریاستوں میں سیاسی طور پر کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے یا نہیں۔

مغربی بنگال میں وزیر اعلی ممتا بینرجی کی علاقائی جماعت ترنمول کانگریس اقتدار میں ہے۔ وہ کمیونسٹوں کی 35 برس پرانی حکومت کو ہٹا کراقتدار میں آئی تھیں۔ ریاست میں اب کمیونسٹ کمزور پڑ چکے ہیں۔ کانگریس اور کمیونسٹ یہاں ایک غیر رسمی مفاہمت کےساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں پہلی بار مغربی بنگال مین 16 فی صد رائےدہندگان نےبی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔

ایک مرحلے پر ایسا لگنے لگا تھا کہ مودی کی مقبولیت بنگال میں بی جے کو اقتدار میں لا سکتی ہے۔ لیکن چند ہی مہینوں میں مودی کی مقبولیت کا اثر تیزی سےکم ہونے لگا اورریاست میں اس کی ساری جد و جہد اپنا پیر جمانےتک محدود ہو سکتی ہے۔

بی جےپی اور وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ساری طاقت آسام پر مرکوز رکھی ہے۔ یہاں کانگریس دس برس سےاقتدار میں ہے اور بی جے پی یہ امید کر رہی ہے کہ تبدیلی کی خواہش اسےاقتدار میں لا سکتی ہے۔ بی جے پی نےیہاں دو علاقائی جماعتوں سے اتحاد کررکھا ہے۔

یہاں دیگر معمول کےترقیاتی موضوعات کےساتھ بنگلہ دیش سےغیر قانونی تارکین وطن کو ریاست میں آنے سےروکنےکا سوال ایک اہم موضوع ہے۔ بے جے پی اسے ایک ایک جذباتی اور قوم پرستی کا رنگ دینےکی کوشش کررہی ہے۔ فی الوقت ریاست میں صورتحال واضح نہیں ہے کہ ہوا کس کے حق میں بہتر ہے

کیرالہ جنوب کی سب سےآخری ریاست ہے اور یہاں ماضی کی تاریخ کےمطابق ایک بار کانگریس اور ایک بار کمیونسٹ محاذ اقتدار میں باری باری آتے رہے ہیں۔ یہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کی تعداد کی تعداد 50 فی صد سےزیادہ ہے۔ بی جے پی برسوں سے یہاں اپنا اثر جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ گذشتہ کچھ برسوں میں کانگریس اور کمیونسٹ دونوں ہی کمزور ہوئے ہیں۔ لوگوں میں تبدیلی کی زبردست خواہش ہے لیکن بی جےپی کیا وہ متبادل بن کر ابھر سکتی ہے۔ یہ انتخابات میں ہی معلوم ہو سکے گا۔

تمل ناڈو میں جیہ للتا کی اے آئی ڈےایم کے پارٹی اقتدار میں ہے۔ بی جےپی یہ امیدکر رہی تھی کہ وزیر اعلی جیہ للتا سےاس کا اتحاد ہو جائے گا لیکن وہ ہو نہ سکا۔ اب وہ تنہا الیکشن لڑ رہی ہے۔

پانڈیجری ایک چھوٹی ریاست ہے اور وہاں کانگریس اوراے آئی ڈی ایم کی حکوتیں بنتی رہی ہیں۔

ان ریاستوں میں بی جے پی کے جیتنے کےامکانات بہت کم ہیں ۔ بی جے پی پر ان کےنتائج سےبراہ راست کوئی اثر نہیں

پڑے گا لیکن دوسری جماعتوں کی جیت سے اپوزیشن کو حوصلہ ملے گا اورنریندرمودی کی حکومت نفسیاتی طور پر کمزور ہوگی۔

بی جےپی کے لیے سب بڑا انتخابی چیلنج آئندہ برس در پیش ہو گا جب ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش اور پنجاب میں اننتحابات ہوں گے ۔ بی جے پی اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے ابھی سےہی ساری تیاریاں شروع کردی ہیں ۔ پنجاب میں دلی کی طرح اروند کیجریوال کی جماعت عام آدمی پارٹی رفتہ رفتہ ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھر رہی ہے۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں کےلیے یہ جماعت ایک بڑا سیاسی چیلنج بن سکتی ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close