جنید جمشید پر حملے کا مقدمہ درج
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر جنید جمشید پر تشدد کے واقعے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
واقعے کا مقدمہ جنید جمشید کی درخواست پر ایئرپورٹ پولیس اسٹیشن میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا، جس میں 506 (دھمکیاں دینے) اور 341 (محبوس رکھنے) کی دفعات شامل کی گئیں۔
یاد رہے کہ گلوکاری چھوڑ کر مذہب کی جانب راغب ہونے والے اور ملبوسات کے معروف برانڈ کے مالک جنید جمشید پر بینظیر انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر مشتعل ہجوم نے حملہ کیا تھا، جس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئی۔
جنید جمشید ہفتہ کی شب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آ ئی اے) کی پرواز پی کے 372 سے کراچی سے اسلام آباد پہنچے تھے، جنھیں اسی پرواز سے سفر کر نے والے دیگر مسافروں نے ایئرپورٹ لاؤنج سے باہر نکلنے پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
انٹرنیٹ پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشتعل افراد مذہبی رہنما کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں، حملہ کرنے والے افراد کا دعویٰ تھا کہ جنید جمشید نے اسلام کی مقدس شخصیت کی توہین کی ہے، اس دوران 8 سے 10 افراد کے گروہ میں سے کئی نے اُن پر حملہ کر دیا۔
حملہ کرنے والے افراد نے متعدد بار جنید جمشید کو گھونسے بھی مارے۔
ویڈیو میں سنا جا سکتا ہے ریکارڈنگ کرنے والا شخص حملہ کرنے والوں کو ‘شاباش’ دے رہا ہے۔
اسی دوران حملہ کرنے والوں سے جب پوچھا گیا کہ ہوا کیا ہے؟، تو جواب میں ایک شخص کہتا ہے کہ ‘کیا کوئی اپنی ماں کے لیے گالی برداشت کرے گا؟ تم (جنید جمشید) نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں گستاخی کی ہے۔’
اس کے ساتھ ہی ایک اور دھمکی آمیز جملہ بھی کہا جاتا ہے کہ "ہم ان (جنید جمشید) کو ڈھونڈ رہے ہیں، ان کے نصیب اچھے ہیں”۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جنید جمشید زیادہ تر خاموش رہے اور ہجوم کی جانب سے ہونے والی تنقید اور الزامات سنتے رہے۔
اس دوران ایک شخص جنید جمشید کی جانب بڑھتا ہے اور ہجوم میں سے نعرہ لگایا جاتا ہے کہ ‘گستاخ رسولﷺ ہیں آپ’, ساتھ ہی گالیاں بھی سنائی دیتی ہیں اور ہجوم ان پر حملہ کردیتا ہے، جس کے بعد جنید جمشید واپس لاؤنج کی جانب بھاگ کر اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔
جس وقت ہجوم نے جنید جمشید پر حملہ کیا وہاں کوئی بھی سیکیورٹی اہلکار نظر نہیں آ رہا۔
واقعے کا علم ہوتے ہی وزیرِداخلہ چوہدری نثار نے پولیس کو جنید جمشید سے رابطہ کرکے مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔
وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، معاشرے میں تشدد اور عدم برداشت کی روش کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
خیال رہے کہ جنید جمشید ٹی وی چینلز پر مذہبی پروگرام کرتے رہتے ہیں، 2014 میں ایک پروگرام میں متنازع جملے بولنے پر ان کے خلاف سنی تحریک کے رہنما مبین قادری کی درخواست پر مقدمہ درج ہوا تھا، مبین قادری کے مطابق ایک جنید جمشید نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔
کراچی کے رسالہ پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-سی (توہین رسالت ﷺ) اور 298-اے (مقدس شخصیات کی توہین) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
دوسری جانب جنید جمشید نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے باقاعدہ ویڈیو پیغام کے ذریعے معافی بھی مانگی تھی۔
جولائی 2015 میں جنید جمشید ایک مرتبہ پھر تنازع کا شکار ہوئے، جب انہوں نے ایک ٹی وی شو میں کے دوران کہا تھا کہ ’اللہ کو نہیں پسند کے کسی عورت کا نام قرآن میں آئے‘۔
جنید جمشید نے احساس ہونے پر اپنی غلطی کو درست کرنے کے لیے اپنے بیان کے فوری بعد فیس بک اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شائع کی جس میں انہوں نے اپنے بیان کی قرآن کی آیات کے حوالے سے خواتین کے بہت زیادہ احترام کی حیثیت کی وضاحت کی۔
ان کا کہنا تھا: ’عورت ہیرا ہے اور ہیرے کی حفاظت کی جاتی ہے‘۔