لکی پاناما سرکس
نہ ہیکنگ ہوتی، نہ موساک فونسیکا کا جار ٹوٹتا، نہ آئس لینڈ کے وزیرِ اعظم استعفیٰ دیتے، نہ ہی پاکستانی حزبِ اختلاف کو نواز شریف کا استعفی طلب کرنے کے لیے ایک اور مثال دستیاب ہوتی۔ ویسے استعفیٰ طلب کرنے کے لیے کسی پاناما پیرز لیکس کی ضرورت تو نہیں ۔اگست 2014 میں جب ڈی چوک میں 126 روزہ گو نواز گو دھرنا شروع ہوا تو کون سے پاناما پیپرز تھے؟ بس کسی نے کان میں یہی تو کہا تھا ناں کہ خان صاحب الیکشن میں 35 پنکچر لگا کے تحریکِ انصاف کا انتخابی ٹائر چوری کر لیا گیا ہے لہذا میاں نوں پے جاؤ اور خان صاحب میاں نوں پے گئے۔ اگر اسی دھرنے کے کوئی کتابیں پڑھنے والا مشیر ہوتا تو خان صاحب کے کان میں کہہ سکتا تھا کہ نواز شریف کی انتخابی دھاندلی تو کچھ بھی نہیں۔ عالمی بینکنگ کے معروف ماہر ماہر ریمنڈ بیکر کی کتاب ’ کیپٹل ازمز اکیلیز ہیل: ڈرٹی منی، اینڈ ہاؤ ٹو رینیو دی فری مارکیٹ سسٹم‘ پڑھ لیجیے۔اس میں لکھا ہے کہ لندن میں مے فئیر کے فلیٹس برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ تین فرنٹ کمپنیوں ’نیسکول، نیلسن، شمروک سکسٹی ایٹ‘ اور چینل آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ’چنڈرون جرسی پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کے پردے میں خریدے گئے۔ خان صاحب اگر بروقت کتاب پڑھ لیتے تو انھیں پاناما لیکس کا چھینکا اتفاقاً ٹوٹنے اور دو برس بعد ایک اور دھرنے کی دھمکی کی ضرورت نہ ہوتیڈی چوک دھرنے میں خان صاحب نے طاہر القادری اور تھرڈ ایمپائر سے پارٹنر شپ کی تھی۔ اب رائے ونڈ سٹیٹس کے باہر مجوزہ دھرنے میں پیپلز پارٹی سمیت حزبِ اختلاف کی پارلیمانی جماعتوں سے شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ کیسا لگے گا اگر رائے ونڈ دھرنے کے کنٹینر پر عمران خان، رحمان ملک، مولانا فضل الرحمان اور ڈاکٹر فاروق ستار ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کرپشن کے خلاف جہاد کا عہد کر رہے ہوں؟ حالانکہ پاناما پیپرز میں صرف شریف خاندان کے علاوہ سیاسی، کاروباری، صنعتی، عدالتی اور ابلاغی طبقات سے متعلق 215دیگر نام بھی ہیں مگر کسی نیوز چینل یا کرپشن مکاؤ تحریک کا فوکس ان پر نہیں۔ سیانے کہتے ہیں اشتہار اور چندے کی آس بری شے ہے ۔ رہی بات شریف برادران کی تو ان کی وکالت پرویز رشید کی قیادت میں وہی ماٹھی ٹیم کر رہی ہے جو ڈی چوک دھرنے میں کی جانے والی ہر تقریر کا جواب دینے کے لئے بنائی گئی تھی۔ الزامات کے بیل کو سینگوں سے پکڑنے کے بجائے ہر الزام کا توڑ جوابی کوسنوں میں تلاش کیا جا رہا ہے رہے وزیرِ اعظم تو ان کا منشور منیر نیازی کی یہ نظم ہے کہ ’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں‘ ، اسی لیے انھوں نے پاناما گیٹ کے بعد کی گئی صفائی تقریر میں جس ریٹائرڈ جج پر مبنی جانچ کمیشن بنانے کا اعلان کیا وہ جج اب تک نہیں ملا۔ وزیرِ اعظم یہ گیند سپریم کورٹ کے احاطے میں بھی پھینک سکتے تھے مگر پھر یہ خطرہ کہ سپریم کورٹ جانے کون سا جج نامزد کر ڈالے۔ سیاسی مسائل کو عدالتی فارمولے سے حل کرنا انوکی اور محمد علی کے بے جوڑ دنگل جیسا ہے۔ ویسے بھی بینکنگ اور فنانس ایسے رولر کوسٹرز ہیں کہ اچھے اچھے ماہرین کو دانتوں پسینہ آجاتا ہے۔اگر یہ بھول بھلیاں اتنی سہل ہوتی تو آج سینکڑوں معزز پاکستانی لمبی لمبی جیلیں کاٹ رہے ہوتے۔ اسی لیے عمران خان ہوں کہ کوئی اور، اس بھول بھلیاں میں گھسنے کے بجائے پاناما گیٹ کے کاغذات سے میسر آگ پر جتنی دیر تلک سیاسی ہاتھ تاپ سکتا ہے تاپے گا۔ تب تلک خانہ بدوش کو سامنے کی پہاڑی پر کوئی اور جلتی لکڑی نظر آجاوے گی۔