غربت، فاقے اور خوشی کی دھنیں
سر اور ساز سے انسان کا صدیوں پرانا رشتہ ہے، یہی سر کبھی خوشیاں بکھیرتے ہیں تو کبھی انہیں سن کر ہم رقص کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ جب انسان نے کرہء ارض پر جنم لیا، تو اس کا رشتہ نہ صرف خود سے بلکہ اس کے آس پاس موجود پرندوں، جانوروں اور دیگر قدرتی چیزوں سے جڑ گیا۔ کہیں اسے پرندوں کے چہچہانے میں خوشگوار گیت سنائی دیے، تو کبھی آبشاروں کے گرنے کو دلفریب موسیقی سے تشبیہ دی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا کا قدیم ترین ساز بانسری آج سے ہزاروں سال قبل بنائی گئی تھی۔ یہ بانسری اس وقت کسی جانور کی ہڈی سے بنائی گئی تھی۔ پھر انسان نے پہلی بار ہاتھی کے چمڑے سے ڈھول بنایا اور اس طرح ساز سے انسان کا ایسا رشتہ قائم ہوگیا جوکہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ شاید اس وقت کے انسان نے بھی اپنی تنہائی کو مٹانے کے لیے ساز ایجاد کیے اور سروں کی ایک نئی دنیا تخلیق کی۔
آج ہم ان لوگوں کی زندگیوں کو ٹٹولنے کی کوشش کریں گے جو صدیوں سے خوشیاں بانٹتے آ رہے ہیں، مگر ان کی اپنی زندگیاں درد اور آشوب میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ حیدرآباد کی سڑکوں پر بیٹھے ہوئے منگنہار قبیلے سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ آج بھی اپنے سازوں کو ذریعہء معاش بنائے ہوئے ہیں، جن کا اس شہر میں نہ کوئی گھر ہے اور نہ ہی کوئی ایسی سایہ دار چھت جس کے نیچے وہ اپنی زندگی سکون سے گزار سکیں۔
حیدرآباد کے علاقوں قاسم آباد اور لطیف آباد کے فٹ پاتھ پر جا بجا آپ کو ڈھول نواز اور شہنائی نواز ملیں گے جو کہ دن رات اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کوئی ان کو بلانے آئے اور وہ اپنی روزی کما سکیں۔ مگر منگنہار فقط ساز بجانے والے نہیں ہوتے بلکہ گویئے بھی ہوتے ہیں۔ سندھ کے خطے تھر اور ہندوستان کے راجستھان میں ایسے کئی گھرانے ہیں جو کہ ساز و آواز کی دنیا سے وابستہ ہیں۔
مجھے ان سے بات کرنے کا جب موقع ملا تو ان کے دکھ درد بھی مجھ پر عیاں ہوئے۔ یہ وہ قبیلہ ہے جس کا ذکر سندھی زبان کے عظیم کلاسیکل شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی اپنے کلام کے ذریعے بیان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے دور میں ایک مروج داستان کو اپنے اشعار کی صورت میں بیان کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں رائے ڈیاچ نامی ایک بادشاہ جونا گڑھ پر حکومت کیا کرتا تھا۔ اس کی بہن بے اولاد تھی۔ ایک روز اس نے ایک فقیر سے دعا کے لیے کہا۔ فقیر نے کہا کہ "تمہیں بیٹا ہوگا مگر وہ تمہارے بھائی کو قتل کرے گا۔” یہ سن کر وہ نہایت پریشان ہوئی۔ چند ماہ بعد جب اسے بیٹا ہوا تو اس نے اسے فقیر کی پیشگوئی کے خوف سے ایک لکڑی کی صندوق میں ڈال کر دریا کے حوالے کر دیا۔
یہ صندوق بہتا ہوا راجا انی رائے کے ملک گجرات میں جا پہنچا، جہاں یہ ایک آدمی کے ہاتھ لگا اور اس نے اس بچے کا نام بیجل رکھا۔
وقت گزرتا گیا اور بیجل جوان ہوگیا۔ ایک روز بیجل جنگل میں مویشی چرا رہا تھا تو اس کے کانوں پر کسی ساز کا آواز پڑی۔ وہ ہرن کی آنتیں تھیں جو کسی درخت میں لٹکی ہوئی تھیں اور سوکھ چکی تھیں، جس میں سے مدھر سر نکل رہے تھے، جس کی وجہ سے جنگل کے چرند پرند اس کے پاس جمع ہوگئے تھے۔ ان آنتوں سے بیجل نے اپنا ساز سرندا (رباب) تیار کیا۔
بیجل کی پیدائش کے وقت انی رائے بادشاہ کے ہاں بھی بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس نے غصے میں آکر اپنی بیٹی کو دریا میں بہا دیا تھا، اور وہ رائے ڈیاچ کے ملک میں آ پہنچی۔ اسے رتنا کمہار نے پال پوس کر بڑا کیا اور اس کا نام سورٹھ رکھا۔ سورٹھ جب جوان ہوئی تو اس کی خوبصورتی پر انی رائے دیوانہ ہوگیا، مگر اسے یہ علم نہ تھا کہ یہ اسی کی ہی بیٹی تھی۔
انیرائے نے اس کا رشتہ مانگا اور پھر بارات لے کر رائے ڈیاچ کے ملک آنے لگا۔ جب یہ بات رائے ڈیاچ کو پتا چلی تو اس نے سورٹھ کو اپنے محل میں بٹھا دیا اور انی رائے خالی ہاتھ واپس ہوگیا۔ اس نے بدلہ لینے کے لیے رائے ڈیاچ کے ملک پر کئی حملے کیے لیکن ناکام رہا۔ اپنے ملک واپس آ کر اسے نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی رائے ڈیاچ کا سر قلم کر کے لائے گا، وہ اسے ہیروں جواہروں سے بھرا تھال اور جو مانگے وہ دے گا۔
اس وقت بیجل کی بیوی نے اپنے شوہر کی غیر حاضری میں وعدہ کیا کہ یہ کام اس کا شوہر کر دے گا۔ اور ہیروں سے بھرا تھال اس نے اپنے پاس رکھ لیا۔ جب بیجل کو پتہ چلا تو وہ بہت پریشان ہوا مگر وعدے کی وجہ سے جوناگڑھ روانہ ہو گیا۔
رائے ڈیاچ راگ کا رسیا تھا۔ بیجل کے سر سن کر اس نے کہا "مانگو کیا مانگتے ہو”۔ بیجل نے کہا "مجھے تمہارا سر چاہیے، سنا ہے کہ تم کبھی انکار نہیں کرتے ہو جو کچھ بھی مانگا جائے۔”
رائے ڈیاچ نے اسے کئی انعامات پیش کیے مگر بیجل اس کا سر ہی مانگتا رہا۔ آخرکار بادشاہ نے اپنی زبان کی لاج رکھتے ہوئے ضدی بیجل کو اپنا سر کاٹ کر دے دیا۔ بیجل جب اس کا سر لے کر انی رائے کے پاس پہنچا تو اسے بہت غصہ آیا، اور کہا کہ جو شخص تھوڑی سی لالچ کے لیے ایسے سخی بادشاہ کو مار ڈالے، وہ کسی دوسرے کا کیا وفادار ہوگا۔
بیجل بہت پشیمان ہوا اور جونا گڑھ کی جانب دوڑا، جہاں سورٹھ ستی بن کر آگ کے الاؤ میں جل رہی تھی۔ بیجل بھی اسی الاؤ میں کود پڑا اور بھسم ہوگیا۔
دور سے جونا گڑھ میں آیا ہے،
ایک عجیب و غریب موسیقار
مضطرب ہوگیا شہر سارا،
سن کر اس کے رباب کی جھنکار
ہو گئی سب پر بے خودی طاری،
نغمے کی لے سے ہو گئے سرشار
کون جانے وہ ایک قاتل ہے،
صرف راجا کے سر کا سائل ہے
(شاہ سائیں)
محبوب علی بچپن سے ڈھول بجا رہا ہے۔ اب اس کے بالوں میں چاندی چمکنے لگی ہے، جسم کمزور ہوگیا ہے، اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے نمودار ہو گئے ہیں۔ مگر پھر بھی اس کا رشتہ اس ساز سے قائم ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ڈھول بجا کر گزر بسر کیسے ہوتا ہے، تو جواب میں اس نے کہا "ہم تو فقیر ہیں، سروں کا سودا کرتے ہیں، ڈھول کا خالی پیٹ پِیٹ کر اپنا خالی پیٹ بھرتے ہیں۔” محبوب علی کے کپڑوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ غربت کس بلا کا نام ہے، مگر وہ غربت اب اس کے چہرے پر بھی دکھائی دیتی ہے جو ہر وقت یہی شکایت کرتی نظر آتی ہے کہ اس کے حصے میں پیٹ بھر کھانے کے لیے روٹی کیوں نہیں ہے۔
کسی زمانے میں سندھ میں ایک عام سی روایت تھی کہ گاؤں میں موجود کمہار ہوں، منگنہار ہوں، یا پھر لوہار ہوں یہ سب سارے گاؤں کے ہوا کرتے تھے اور انہیں گاؤں پالا کرتے تھے۔ منگنہاروں کو شادی بیاہ کے موقعوں پر کئی ماہ پہلے ہی بتا دیا جاتا تھا، اور انہیں اس وقت کپڑوں سمیت بے تحاشہ پیسے ملتے تھے، مگر گاؤں میں اس رجحان میں کمی کے بعد اب انہوں نے شہروں کا رخ کیا ہے، جہاں بس ان کا پیشہ ایک ہوائی روزی بن گیا ہے۔
حیدرآباد میں اب دو اقسام کے ڈھول نواز ہیں، ایک سندھی اور دوسرے پنجاب سے آئے ہوئے۔ مگر ان دونوں میں کافی فرق ہے۔ اگر آپ کو بڑا ڈھول بجانے والا نظر آئے تو سمجھ لیں کہ اس کا تعلق پنجاب سے ہے، کیونکہ سندھی ڈھول سائز میں چھوٹا ہوتا ہے۔ ڈھول دو اہم حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ نر اور مادہ۔ بڑے دائرے والا حصہ نر جبکہ چھوٹا حصہ مادہ کہلاتا ہے۔
ڈھول کا جسم شیشم اور ببول کی لکڑی سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل اس میں بکرے کا چمڑا استعمال کیا جاتا تھا، مگر اب اس میں ایکسرے شیٹ لگائی جاتی ہے کیونکہ بکرے کا چمڑا اب 2000 تک ملتا ہے اور شیٹ 200 تک مل جاتی ہے۔ ڈھول بجانے کے لیے ایک موٹی اور ایک پتلی لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے، جسے سندھی میں ڈونکو اور چھانبھی کہتے ہیں جبکہ پنجابی میں ٹگو اور کانبی کہا جاتا ہے۔
ان فقیروں کے اب بہت سارے گروپ ہیں، ان سب کو شکایت ہے کہ اب ایکو ساؤنڈ سسٹم کی وجہ سے ان کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ اگر انہیں کوئی شادی بیاہ کے لیے لینے بھی آتا ہے تو صرف 500 ملتے ہیں۔ اور اب گھور (پیسے لٹانے کا رواج) بھی کم ہو گیا ہے۔ اس لیے روزگار تھم سا گیا ہے۔ سندھی ڈھول نواز اور شہنائی نوازوں کی انفرادیت یہ ہے انہیں اس بات کا علم ہے کہ دلہن کے مایوں میں بیٹھنے سے لے کر اور دولہے کے نکاح تک کون سی دھنیں بجانی ہیں، کیونکہ سندھ میں ہر رسم کے لیے الگ الگ دھنیں بجائی جاتی ہیں۔
محبوب علی اور اس کے سارے ساتھی اس بڑے سے شہر میں گھر سے محروم ہیں اور ریلوے اسٹیشن پر مسافر خانے میں 50 روپے یومیہ دے کر رات بسر کرتے ہیں۔ جب کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنا کھانا پینا بھی فٹ پاتھ پر پکاتے ہیں۔
میں نے جب دلبر فقیر سے پوچھا کہ "شہر میں آنے کے بعد کیا گاؤں کے مقابلے میں کمائی زیادہ ہوتی ہے؟” تو میرے سوال پر اس کا جواب اس کی پھیکی سی مسکراہٹ ہی تھی۔ اس نے کہا "ہمیں کوئی فنکار نہیں سمجھتا ہے، بس منگتے ہیں ہم تو، نہ حکومت کوئی داد رسی کرتی ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ ہمارے فن کو بچانے کے لیے کوشش کر رہا ہے۔”
آج کی برق رفتار دنیا میں ان فقیروں کا فن دم توڑ رہا ہے۔ کوئی ان کو فنکار سمجھ کر داد دینے کو تیار نہیں ہے۔ اپنے بچوں کو پڑھانا بھی ان کے لیے مشکل ہو گیا ہے، اس لیے ان کا مقدر بھی ڈھول پیٹنا ہے۔ شاہ سائیں نے بیجل کو "قاتل شکاری” کہا ہے۔ مگر آج کے دور کے یہ بیجل نہ تو کسی کا سر مانگتے ہیں اور نہ ہی انہیں یہ لالچ ہے کہ کوئی انہیں ہیرے جواہرات دے۔ بس یہ اپنے فن کے قدردان چاہتے ہیں کیونکہ اتنا تو انہیں بھی پتہ ہے کہ اس دور میں اب کوئی رائے ڈیاچ نہیں رہا، جو سروں کے بدلے سر کا سودا کرے۔