پاکستان نے طالبان کو’’آپریشن عمری‘‘ بند نہ کرنے پر سنگین نتائج کیلئے خبردار کردیا
اسلام آباد: افغان امن عمل کو بحال کرنے کے لیے پاکستان نے افغان طالبان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ’’آپریشن عمری‘‘ کے حوالے سے کارروائیاں روک دیں ورنہ دوسری صورت میں نتائج بھگتنے کیلیے تیار رہیں۔
یاد رہے کہ طالبان نے گذشتہ ہفتے افغان حکومت اور امریکی اتحادی افواج کے خلاف نئے حملوں کے آغاز کا اعلان کیا ہے اور ان کارروائیوں کو اپنے مرحوم سربراہ ملا عمر کے نام سے ’آپریشن عمری‘ کا نام دیا ہے۔ سیاسی حلقے افغان طالبان کے اس اعلان کو افغان امن عمل کیلیے بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے نئے حملوں کا اعلان4ملکی کمیٹی کی جانب سے افغان امن عمل کیلیے کوششوں کو متاثرکرے گا، پاکستان کی جانب سے افغان طالبان پرزوردیاگیاہے کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کردیں اورمذاکرات شروع کریں، موسم بہار میں طالبان کی جانب سے نئے حملوں کے آغازکا اعلان انتہائی مایوس کن بات ہے۔ حکام کا کہناہے کہ رابطہ کاروں کے توسط سے افغان طالبان کی قیادت کوواضح پیغام پہنچادیاگیاہے کہ مذاکرات سے انکارکی انھیں بھاری قیمت چکاناپڑے گی۔
پاکستان حکومت کی کوششوں سے افغان حکومت اور افغان طالبان میں جولائی2015میں پہلی بار براہ راست مذاکرات شروع ہوئے تھے لیکن ملاعمر کی موت کی خبر منظرعام پر آنے اور طالبان کے درمیان آپس کے اختلافات کے باعث مذاکرات تعطل کا شکارہوگئے تھے۔ وزیراعظم کے مشیرخارجہ سرتاج عزیزنے واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک سے خطاب میں پہلی بار اس بات کا اعتراف کیاتھاکہ افغان طالبان کی قیادت اپنے اہل خانہ سمیت پاکستان میں مقیم ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہاتھاکہ پاکستان نے افغان طالبان کی قیادت کی نقل وحرکت پر پابندیاں لگانے کا دبائو ڈالتے ہوئے مذاکرات شروع کرنے پرزوردیا تھا اور اس بات کی تردید کی تھی کہ افغان طالبان کی قیادت کو پاکستان میں کوئی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔
لیکن یہ بات ابھی واضح نہیں کہ ’آپریشن عمری‘ بند کرنے اور مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے پاکستان کا انتباہ کارگرثابت ہوگا یا نہیں، یہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان حکومت کی جانب سے پابندیاں لگانے قبل متعدد افغان طالبان رہنما پاکستان سے انخلا کرچکے ہیں یا افغانستان واپسی کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ مشکلات کے باوجودافغان عمل کے حوالے سے پاکستان اور4ملکی کمیٹی نے ہمت نہیں ہاری ہے اور کوششیں جاری ہیں۔