اپنے مشورے پر عمل کریں، استعفیٰ دیں
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے جمعہ کی شام قوم سے خطاب میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھنے کا اعلان کیا اس پر حزب اختلاف کے رہنماؤں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم کی تقریر کے بعد ٹویٹ میں کہا کہ ’وزیر اعظم نے اپنے آپ کو پارلیمان کے سامنے پیش نہیں کیا اور وضاحت نہیں کی۔ ان کو اپنے مشورے پر عمل کرنا چاہیے اور مستعفی ہو جانا چاہیے۔‘
یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان تحریک انصاف کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مقامی ذرائع ابلاغ پر نواز شریف کی تقریر پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں طعنہ زنی اور دھمکیوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
وزیر اعظم کی تقریر کے بعد سامنے آنے والی تحقیقاتی کمیشن کے قواعد اور ضوابط اور کارروائی کے طریقے کار کی شقوں کے بارے میں پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت نے یہ کمیشن یک طرفہ طور پر اپوزیش کو اعتماد میں لیے بغیر بنایا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے پاکستان انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت بنایا ہے جبکہ حزب اختلاف ایک خصوصی قانون کے تحت کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
انھوں نےکہا کہ سنہ 2015 میں جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جو کمیشن بنایا گیا تھا اس کے لیے نیا قانون بنایا گیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علیم خان نے کہا کہ ’نواز شریف ذاتیات پر اتر آئے ہیں اور انھوں نے عمران خان پر رقیق حملے کیے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ نواز شریف کےسنہ 2015 میں دھاندلی کے الزامات کی چھان بین کے لیے بنائےگیا کمیشن حکومت اور تحریک انصاف کے ارکان نے مشترکہ طور پر بنایا تھا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ’قوم سے خطاب میں پالیسی بیان دیے جاتے ہیں جبکہ نواز شریف دھمکیاں اور طعنے دیتے رہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنی صفائی پیش کرتے لیکن انھوں نے یہ موقع ضائع کر دیا۔‘
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ حکومت نے یہ اعلان ایک ایسے وقت کیا ہے جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی ایک ہفتے کے لیے ملک سے باہر جا رہے ہیں۔
شیخ رشید کے مطابق حکومت نے ایک مرتبہ پھر وقت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔