رکشہ ڈرائیور نے نوجوان بھارتی لڑکی کو شرمندہ کردیا، موقف ایسا کہ اس لڑکی سمیت ہرکوئی داد دینے پر مجبور ہو گیا
بنگلور: بھارت میں جہاں جنسی درندوں کی کوئی کمی نہیں وہاں کچھ ایسے افراد بھی موجود ہے جو معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں ایسا ہی کچھ بھارت کے شہر بنگلور میں ایک رکشہ ڈرائیور وکرانت نے بھی کیا اور اپنے رکشے میں بیٹھنے والی ایک خاتون صحافی کے لباس پر کچھ ایسا اعتراض کیا کہ اس صحافی سمیت ارد گرد جمع ہو جانے والے افراد بھی اس کے موقف کی تائید کئے بغیر نہ رہ سکے۔
بنگلور کی خاتون صحافی ایشوریا سوبرامانین نے اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ فیس بک پر شیئر کر دیا اور حیرت انگیز طور پر لوگوں نے رکشہ ڈرائیور کے موقف کی حمایت کی۔ اس نے لکھا کہ وہ اپنے گھر واپس جانے کیلئے ایک رکشہ میں بیٹھی تو اس کے ڈرائیور سری کانت نے کہا کہ اسے مناسب کپڑے پہننے چاہئیں اور بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ رکشہ سے باہر آیا اور ایک اچھا خاصا لیکچر بھی دیدیا تاکہ وہ یہ سمجھا سکے کہ اسے اس طرح کے کپڑے کیوں نہیں پہننا چاہئیں۔
ایشوریا نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ” رکشے کا کرایہ 40 روپے بنا لیکن میں نے اسے کہا کہ تم 50 ہی رکھ لو کیونکہ باہر بہت گرمی تھی اور اسی وقت اس نے میری جانب دیکھا اور کہا کہ ”میری بات کا برا مت ماننا لیکن تم نے جس طرح کے کپڑے پہن رکھے ہیں وہ مناسب نہیں ہیں“۔ میں یہ سن کر ششدر رہ گئی اور پھر اگلے ہی لمحے میں نے اسے کہا کہ تم مجھے یہ بتانے کا حق نہیں رکھتے کہ مجھے کیا پہننا چاہئے اور کیا نہیں۔
یہ سن کر وہ یہ بتانے کیلئے رکشہ سے باہر آ گیا کہ مجھے فحش لڑکیوں کی طرح کے کپڑے کیوں نہیں پہننا چاہئیں( میں نے سفید رنگ کا گرمیوں کیلئے مخصوص سوٹ پہن رکھا تھا جو میرے گھٹنوں تک آ رہا تھا) اس دوران میں نے اس کی تصاویر اتارنی شروع کر دیں اور یہ دیکھ کر وہاں کئی دوسرے افراد اکٹھے ہو گئے اور انہی میں سے ایک شخص نے رکشہ ڈرائیور کے موقف کی تائید بھی کر دی اور دونوں نے موقف اختیار کیا کہ میرے جیسی اچھی سوسائٹی کی لڑکی کو اچھے اور عورتوں جیسے کپڑے پہننے چاہئیں۔ اس موقع پر میں رونے کے قریب پہنچ چکی تھی، یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مجھے بھیڑ میں بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا تھا، خوش قسمتی سے قریب ہی موجود ایک جنک فوڈ کے سٹور سے دو آدمی باہر نکلے اور مجھے کچھ حوصلہ ہوا، میں نے آٹو رکشہ کے ڈرائیور اور مورال پولیس کو بتایا کہ جب بھی اور جہاں بھی جو مرضی میں آئے گا پہنوں گی اور اس کے ساتھ ہی میں شدید شرمندگی محسوس کرتے ہوئے چل پڑی۔
آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ہم کیوں اپنی عزت کیلئے لڑتے ہیں؟ کیونکہ ہم جو کپڑے پہنتے ہیں وہ بھی ہمیں فاحشہ بنادیتے ہیں تو پھر اس ملک میں ایک لڑکی بن کر رہنے کا کیا مطلب باقی رہ جاتا ہے، میں بہت شرمندگی محسوس کر رہی ہوں، جب وہ آدمی مجھے ”فاحشہ“ کہہ رہے تھے تو میری بلڈنگ کا چوکیدار بھی وہیں کھڑا تھا، یہ میں ہوں اور یہی وہ کپڑے ہیں جو پہنتی ہوں۔