اسلام آباد

دھرنا 18ویں روز میں داخل، ہم نہیں چاہتے کہ دھرنے پہ گولیاں برسائی جائیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فیض آباد انٹر چینج پر مذہبی جماعت کے دھرنے سے متعلق حکومت سے 30 نومبر تک پیشرفت رپورٹ طلب کرلی۔ جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے دھرنے پر 21 نومبر کو لئے گئے نوٹس پر سماعت کی۔ اس موقع پر وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کی جانب سے جوابات عدالت میں پیش کیے گئے جب کہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف بھی پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دھرنا قائدین سے مذاکرات کے لیے مشائخ کو شامل کیا گیا ہے۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا آپ کو اسلام کا نہیں پتا، پاکستان کو دلائل کی بنیاد پر بنایا گیا، جب دلیل کی بنیاد ہی ختم ہو جائے تو ڈنڈے کے زور پر صحیح بات اچھی نہیں لگتی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک شخص نے اسلام آباد اور پنڈی کے سنگم کو بند کر رکھا ہے، ایک شخص کی رٹ قائم ہے لیکن ریاست کی نہیں۔ فاضل جج نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس تشدد کے علاوہ کوئی ایکشن پلان ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم اقدامات کر رہے ہیں لیکن کچھ ایسے اقدمات ہیں جن کی تشہیر نہیں کی جا رہی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انا اور تکبر سب سے بڑا گناہ ہے اور یہ سب انا کے لیے ہو رہا ہے، رحمت کا سلام کسی کے منہ سے کیوں نہیں نکل رہا، سب کے منہ سےگالم گلوچ نکل رہی ہے، ہم بھی پریشان ہوتے ہیں مگر گالم گلوچ نہیں کرتے، ہم نہیں چاہتے کہ مظاہرین پر گولیاں برسائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے، ایک حوالہ دے دیں کہ راستہ بند کر دیا جائے، اسلام میں کہیں ایسا نہیں لکھا، یہ تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہو گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جب ریاست ختم ہوگی تو فیصلے سڑکوں پر ہوں گے، کل کوئی اور مسئلہ ہوگا تو کیا پھر شہر بند ہو جائیں گے۔ فاضل جج نے کہا کہ دھرنے کی وجہ سے ایک بچہ وفات پا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے، ہم ان لوگوں سےگھبرا گئے جو اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے، بچے کی وفات سے میرا دل چکنا چور ہوگیا، میں خود کو ذمہ دار سمجھتا ہوں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چہلم حضرت امام حسین کا وقت تھا جب وہ مظاہرین فیض آباد انٹرچینج پر آکر بیٹھے،ہم نہیں چاہتے کہ خون خرابا ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ نے پرچے کتنے کاٹے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 18 کیسز درج کیے اور 169 لوگ گرفتار ہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ‘ہم عام ملک میں نہیں اسلامی ریاست میں رہتے ہیں، لگتا ہے مسلمانوں کا اسلامی ریاست میں رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، بتائیں کیا حکم کریں، ذمے داری ریاست اور انتظامیہ کی ہے، ہم آپ کا کام نہیں کریں گے، پھر آپ ہی شکوہ کریں گے کہ ہمارے کام میں مداخلت ہوئی’۔ عدالت نے حکومت سے دھرنا مظاہرین کو فیض آباد انٹرچینج سے ہٹانے کے لئے پیشرفت رپورٹ 30 نومبر تک طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی ناساز طبیعت کے باعث کیسز کی سماعت نہ کر سکے۔ عدالت نے گزشتہ سماعت پر دھرنا ختم کرانے کے حوالے سے حکومت کو 2 روز کی مہلت دی تھی اور جمعرات کو حکومت نے دھرنا ختم کرنے کے لئے کیے جانے والے اقدامات سے عدالت کو آگاہ کرنا تھا۔ گزشتہ سماعت پر عدالت نے وزیر داخلہ احسن اقبال کو طلب کرتے ہوئے جڑواں شہروں کو ملانے والے انٹر چینج پر دھرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا، جب کہ عدالت نے آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اور وفاقی سیکرٹری داخلہ کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس بھی جاری کئے تھے۔ دوسری جانب حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے ہونے والے تمام اجلاس بے سود رہے اور کوئی فریق اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد انٹر چینج پر مذہبی جماعت کا دھرنا 18ویں روز میں داخل ہو گیا ہے جب کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لئے حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی اہم شاہراہوں کو کنٹینر لگا کر بند کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کو متبادل راستوں پر ٹریفک جام جیسے مسائل کا سامنا ہے، 14 روز سے میٹرو بس سروس بھی معطل ہے جب کہ فیض آباد اور اطراف کے دکاندار بھی شدید پریشان ہیں۔ اسکول و کالج جانے والے طلبا و طالبات کو طویل سفر طے کرکے اپنی منزل پر پہنچنا پڑتا ہے، اسی طرح دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین بھی شدید پریشان ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close