لفظ آزادی انڈیا میں اتنا متنازع کیوں؟
جب انڈیا کی ایک یونیورسٹی میں طالب علم لیڈر پر ’آزادی‘ کے نعرے پر غداری مقدمہ بنا تو اس نے ملک کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس تقریر میں میوزک ڈالا گیا ہے اور ترانے بنائے گئے ہیں۔
یہ سٹوڈنٹ رہنما کنہیا کمار تھے جو مشہور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔ ان کو جتنا پسند کیا جاتا ہے اتنا ہی ناپسند بھی۔
کمار پہلی بار فروری میں شہ سرخیوں کی ذینت اس وقت بنے جب انھوں نے کیمپس میں ہونے والے ایک اجلاس میں آزادی کا نعرہ بلند کیا۔
یہ نعرہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے 1947 سے قبل لگایا گیا۔ اب یہ نعرہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے جہاں پر انڈیا سے آزادی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
کمار نے جس اجلاس میں آزادی کا نعرہ لگایا تھا وہ کشمیری حریت پسند افضل گرو کو پھانسی دیے جانے کے حوالے سے تھا۔ اور اسی لیے اس نعرے کا تعلق کشمیر سے بنایا گیا۔
کمار نے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ایک کیمپس پر ایک تقریر کی جس کو نیشنل ٹی وی پر لائیو دکھایا گیا اور آن لائن پر لائیو سٹریم کیا گیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا ’ہم انڈیا سے آزادی نہیں مانگ رہے ہم انڈیا میں آزادی مان رہے ہیں۔‘
انھوں نے نعرے لگائے ’بھوک، جاگیردارانہ نظام، سرمایہ داری اور ذات پات کی تفریق سے آزادی۔ جو مرض کر لو ہم آزادی حاصل کر لیں گے۔‘
اور پھر اس نعرے کو ایک زندگی مل گئی۔
’ڈب شرما‘ کے نام سے مشہور ڈب سٹیپ آرٹسٹ سدارتھ شرما نے ان کی تقریر کو پنجابی میوزک میں مکس کیا اور اب یہ مکس بہت مشہور ہے۔
پچھلے ہفتے طلبہ کے ایک گروپ نے گانا بنایا جس میں اس مہم کے حوالے سے دو منقسم آرا کو پیش کیا گیا ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ایک اور طالب علم عمر خالد کی تقریر کو بھی اسی طرح میوزک کے ساتھ مکس کیا گیا ہے۔
غداری کے الزام میں گرفتار ہونے والے تمل فوک آرٹسٹ کوون نے نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی میں ایک گانا ترتیب دیا جس کی پہلی لائن سوال پوچھتی ہے ’تم کیوں لفظ آزادی سے نفرت کرتے ہو‘۔
اس سے قبل کیرالا کی ایک گلوکارہ پوئپا دتھو نے ایک گانا ریلیز کیا جو کمیونسٹ کے ’ریڈ سلیوٹ‘ پ
ر ختم ہوتا ہے۔
یا جس کی پہلی لائن سوال پوچھتی ہے ’تم کیوں لفظ آزادی سے نفرت کرتے ہو‘۔
اس سے قبل کیرالا کی ایک گلوکارہ پوئپا دتھو نے ایک گانا ریلیز کیا جو کمیونسٹ کے ’ریڈ سلیوٹ‘ پر ختم ہوتا ہے۔