خیبر پختونخواہ

جب آگ لگائی گئی تو شاید وہ زندہ تھی

عنبرین کو دفنانے کے لیے اس کی مکمل لاش نہیں تھی۔ اس کی جسم کی راکھ کو لفافوں میں اس کے گاؤں لایا گیا اور پھر دفنایا گیا۔ وہ 15 سال کی تھی اور اپنے والد ریاست خان کی لاڈلی اور اکلوتی بیٹی، اس کے علاوہ ماں شمیم ہے اور بڑا بھائی 16 سالہ نعمان۔

29 اپریل کے واقعہ کی رات مقتولہ کے والد ریاست خان کے بقول، عنبرین گمشدہ تھی۔

’میں بلوچستان کے علاقے گڈانی میں کام کرتا ہوں۔ میرے بھائی نے فون پر بتایا کہ دو کیری وین جلائے گئے ہیں جن میں لاش ملی ہے۔ لاش کے پاس کتابوں کے ٹکڑوں پر میرے بیٹے کا نام درج ہے۔‘

جب گھر پر ڈھونڈا، تو وہ کتابیں نعمان کی ہی نکلیں اور اس طرح عنبرین کی لاش کی شناخت ہوئی لیکن رات کے وقت عنبرین اپنے بھائی کی کتابیں کیوں لے کر بھاگی؟

خیبر پختونخوا میں نتھیاگلی سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر مکول گاؤں میں ایک بچی کو بےدردی سے قتل کرنے کے بعد جلا دینے کے واقعے نے نہ صرف علاقے کے لوگوں بلکہ پورے پاکستان کو ہلا دیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ گاؤں کے ایک خاندان نے اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے ایک غیر رسمی جرگہ بلایا اور عنبرین کو اپنی سہیلی صائمہ کو بھاگ کر شادی کرنے میں مدد کرنے کی وجہ سے اغوا کیا، نشہ آور دوا دینے کے بعد اس کے دوپٹے سے گلا گھوٹ کر مار ڈالا۔ پھر اس کی لاش کو ایک کیری ڈبے میں رکھ کر جلا دیا۔

اس رات عنبرین پر کیا قیامت ٹوٹی اس کی تحقیقات تو جاری ہیں لیکن کیا اس تفتیش سے تمام سوالات کے جواب مل پائیں گے؟

اس واقعے کی درج پہلی پولیس رپورٹ کو پڑھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندہ تھیں جب انھیں کیری ڈبے کی پچھلی نشست پر باندھ کر آگ لگا دی گئی۔ رپورٹ میں پڑوس کے ایک رہائشی زرناب گل ولد گل زادہ نے بتایا کہ ’رات دو بج کر بیس منٹ پر ایک عورت کی چیخ و پکار خدارا بچاؤ بچاؤ کی آوازیں سن کر کھڑکی کھول کر دیکھا تو کیری ڈبہ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں تھا۔ میں نے شور شرابہ کرکے محلے والوں کو جگایا اور آگ بجھانے کی کافی کوشش کی مگر کوئی فائد نہیں ہوا۔

اس عینی شاہد کے بیان سے واضح نہیں کہ یہ چیخ و پکار کس عورت کی تھی؟ اگر یہ عنبرین کی تھی تو بظاہر لگتا ہے کہ جب آگ لگائی گئی تو وہ زندہ تھی۔ اس بیان سے عنبرین کو نشہ دے کر قتل کرنے اور بعد میں نذر آتش کرنے کے موقف کی نفی ہوتی ہے۔ لاش اتنی بری طرح جلی ہوئی حالت میں پولیس کو ملی کہ اسے شناخت کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ اسے ہسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس تک مہیا نہیں تھی لہذا اسے ترپال میں لپیٹ کر ایک گاڑی میں ڈال کر لے جایاگیا۔

خیبر پختونخوا کی پولیس نے جس تیزی سے چودہ ملزمان کو فوری گرفتار کیا، امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ان سوالات کے جواب بھی تلاش کر پائے گی۔ ڈونگہ گلی کے ایس ایچ او نصیر احمد نے بتایا کہ انھوں نے رات کے موبائل فون سگنل سے ان افراد کی کارروائی کا اندازہ کیا۔

ان چودہ افراد میں مقامی کونسلر پرویز بھی شامل ہے۔ پولیس کے مطابق، اس نے جرگہ اس لیے بلایا تھا ’تاکہ برادری میں اپنی دھاک بٹھا سکے اور ایسی روایت قائم کرے کہ کوئی بھی آئندہ نہ لڑکی لے کر بھاگے اور نہ ہی کوئی لڑکی کسی کے پیچھے جائے۔‘

تاہم، عنبرین کی والدہ شمیم کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ اس شک پر کہ انھوں نے اپنی بچی کو اغوا ہونے دیا۔ عنبرین کے والد ریاست خان کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ دگنا ظلم ہوا ہے۔‘

’میری بچی تو واپس نہیں آسکتی لیکن میری بیوی معصوم ہے، اسے تو چھوڑ دیں۔ میں اپنے بیٹے کو سکول نہیں جانے دے رہا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اسے کچھ نہ ہو جائے۔ سب اپنے آپ کو بچانے کے لیے جھوٹ بول رہے ہیں۔‘

ریاست خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی بیٹی کو صائمہ کے ساتھ دوستی نہیں تھی۔ ’میں کیسے زندہ ہوں مجھے پتہ نہیں۔ میرا گھر اجڑ گیا ہے، یہ ہمارے ساتھ کیوں ہوا مجھے سمجھ نہیں آتی۔‘

ریاست خان کی طرح مکول گاؤں کے دیگر مکین بھی گہرے صدمے میں ہیں۔ رہائشیوں نے کہا کہ ان کی غربت کی وجہ سے نہیں لگتا کہ انصاف ہوگا اور یہ کہ خواتین کے خلاف اس قسم کے تشدد کا ایسا پہلا واقعہ اس علاقے میں پیش آیا ہے۔

عنبرین کی جان لے لی گئی چاہے گلہ گھونٹ کر یا جلا کر فرق کیا پڑتا ہے کچھ لوگ یہ کہیں گے۔ لیکن گلہ دبانے سے زندہ جلانا اسے مزید حیوانیت کے قریب لاتا ہے۔ اسے مزید تکلیف دہ بناتا ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ اسے مزید کڑی سزا کا متقاضی بھی بناتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close