پھانسی سے زیادہ تکلیف دہ موت کا طویل انتظار
انڈیا میں گذشتہ 15 برس کےدوران جن مجرموں کو ذیلی عدالتوں نے موت کی سزا سنائی تھی ان میں سے 95 فی صد سے زیادہ مجرموں کی موت کی سزا اعلیٰ عدالتوں نے ختم کردی تھی۔
ان مجرموں کی موت کی سزا یا تو سزائےقید میں تبدیل کردی گئی یا انھیں بری کر دیا گیا۔ لیکن ذیلی عدالت سے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک مقدمے کے پہنچنے کا عمل اتنا طویل ہے کہ موت کی سزا پانے والے قیدی برس ہا برس تک پھانسی سے بھی زیادہ تکلیف دہ زندگی گزارتے ہیں۔ یہ تجزیہ دہلی کی نیشنل لا یونیورسٹی کی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے ۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذیلی عدالت سے سپریم کورٹ میں اپیل تک موت کا طویل انتظار ایک بےمثال اذیت ہے جو پھانسی سے بھی بدتر ہے۔
نیشنل لا یونیورسٹی نے سنہ 2013 اور 2015 کے درمیان جن 385 مجرموں کو موت کی سزا سنائی گئی ہے ان میں سے 373 مجرموں سے بات کرنےکے بعد اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک میں جن مجرموں کو موت کی سزا سنائی گئی ہے ان میں سے 76 فی صد کا تعلق پسماندہ ذاتوں، دلت اورمذہبی اقلیتوں سے ہے۔ یہ سبھی اقتصادی طورپر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور بیشتر ابتدائی سکول کی تعلیم سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انصاف کا عمل ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ بیشتر قیدیوں کا کہنا ہےکہ انھیں مخصوص بیانات دلانے کے لیے دوران حراست ایذائیں دی جاتی تھیں۔ بیشتر قیدیوں سے سادے کاغذات پردستخط لیے گئے تھے۔ بہت سےسزا یافتہ قیدیوں کا کہنا تھا ان کےخلاف جو ثبوت پولیس نے پیش کیے تھے وہ فرضی تھے۔
لا یونیورسٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ ملک کی جیلوں کی حالت یوں تو معمول کے قیدیوں کے لیے بھی کافی تکلیف دہ ہے لیکن جن قیدیوں کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے ان کےلیے الگ سےکمرے ہیں جن میں بیشترقیدیوں کو سپریم کورٹ میں ان کا حتمی فیصلہ ہونےتک برس ہا برس تک موت کی سزا کا انتظار کرنا پڑتاہے۔
ان کمروں کی روشنی دھیمی ہوتی ہےاور اکثر میں کھڑکی بھی نہیں ہوتی۔ بیشتر قیدی پوری طرح سو نہیں پاتےاور گہری مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھارت میں وزارت داخلہ یا محکمہ جیل یا وزارت قانون و انصاف کسی کے پاس بھی پورے ملک کی مختلف عدالتوں میں موت کی سزا پانے والوں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔
ماہرین ایک عرصے سے حکومت کو متنبہ کرتے رہے ہیں کہ ملک کے انصاف کا نظام ناکام ہو رہا ہے۔ ایک طرف پولیس کے غیر پیشورانہ طریقۂ تفتیش اور دوسری جانب عدالتوں پر کروڑوں مقدمات کی سماعت کے غیر معمولی بوجھ سے انصاف کا پورا نظام شدید دباؤ میں ہے۔
اعلی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کا عمل بھی اتنا پیچیدہ اور طریل ہےکہ ملک کے ہائی کورٹوں میں ججوں کی تقریبا نصف سیٹیں خالی پڑی ہیں۔
چند ہفتے قبل ملک کےچیف جسٹس حکومت سے ججوں کی خالی جگہوں کو پر کرنے کی اپیل کرتے ہوئے رو پڑے تھے۔ ہائی کورٹوں میں ایک کروڑ سےزیادہ مقدمات زیر التوا ہیں۔ مجموعی طور پر ملک کی عدالتوں میں سوا تین کروڑ کیسز زیر سماعت ہیں جنھیں پورا کرنے میں دس برس لگیں گے۔
مقدمات کی طویل مدت، اور انصاف حاصل کرنے کی مہنگی قیت کےسبب ملک کے عام آدمی کے لیےانصاف رسائی سے باہر ہو چکا ہے۔جمہوریت میں عدلیہ اور انصاف کا عمل عوام کی آخری امید اورپناہ گاہ ہے۔
انصاف کےعمل کا ناکام ہونا ملک کے جمہوری اداروں کےکمزر ہونےکا غمازہے۔ انصاف جمہوریت کا بنیادی پہلو ہے اگر انصاف کا عمل ملک کی بیشتر آبادی کےلیے ناکام ہونے لگے تو یہ اس معاشرے کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔ حکومت اور ملک کی عدلیہ دونوں کے لیے یہ تشویش کا باعث ہے۔