ٹیکس ہیونز‘ کے خلاف ٹھوس اقدامات کا مطالبہ
تین سو سے زیادہ ماہرینِ اقتصادیات نے ایک خط کے ذریعے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون اور دیگر عالمی رہنماؤں سے کہا ہے کہ وہ ٹیکس چھپانے والی پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔
یہ خط ایک ایسے موقع پر تحریر کیا گیا ہے کہ جب جمعرات کو برطانوی حکومت لندن میں انسدادِ بدعنوانی کے بارے میں عالمی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کر رہی ہے۔
اس کانفرنس میں 40 ممالک کے سیاستدانوں کے علاوہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے نمائندوں کی شرکت متوقع ہے۔
ماہرینِ اقتصادیات کے اس گروپ میں 47 برطانوی پروفیسر بھی شامل ہیں جن کا تعلق آکسفرڈ اور لندن سکول آف اکنامکس سمیت اہم برطانوی جامعات سے ہے۔
پیر کو جاری ہونے والے خط میں کہا گیا ہے کہ ’ہم زور دیتے ہیں کہ رواں ماہ کے انسدادِ بدعنوانی اجلاس کو ’ٹیکس ہیونز‘ کے دور کے خاتمے کی جانب اہم کوششوں کے لیے استعمال کیا جائے کیونکہ یہ پناہ گاہیں عالمی معیشت کے لیے کارآمد نہیں بلکہ ان کا فائدہ چند امیروں اور کثیر القومی کمپنیوں کو ہے اور یہ عدم مساوات میں اضافے کا ذریعہ ہیں۔‘
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے غریب ممالک ٹیکس بچانے کی ان کوششوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور انھیں سالانہ 170 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
خط میں برطانیہ اور دیگر ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ’ٹیکس ہیونز‘ کے بارے میں پراسراریت کا نقاب اٹھائیں اور اپنے زیرِ انتظام ایسے علاقوں میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہاں سے معلومات کا حصول ممکن ہو سکے۔
خیال رہے کہ ٹیکس کی مکمل چھوٹ دینے والے ممالک یا علاقوں کے بارے میں بحث نے پاناما پیپرز کے سامنے آنے کے بعد زور پکڑا ہے۔
گذشتہ ماہ پاناما کی قانونی فرم موسیکا فونیسکا کی لاکھوں فائلیں افشا ہونے سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا کے امیر اور طاقتور افراد اپنی دولت کو مخفی رکھنے کے لیے ایسے ممالک کو چننتے ہیں، جہاں ٹیکس کی چھوٹ ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں دستاویزات کی دوسری قسط پیر نو مئی کو پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق رات 11 بجے عام کی جانی ہے۔
پاناما لیکس کے منظرعام پر آنے کے بعد یورپی یونین ٹیکس چھپانے والی پناہ گاہوں کی فہرست بنانے پر متفق ہوئے ہیں جن پر پابندیاں عائد کی جا سکیں گی۔
یورپی یونین کے وزرائے خزانہ کا کہنا ہے کہ وہ رواں سال موسمِ گرما کے اختتام تک اس منصوبے پر عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں۔
یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ بغیر کی رکاوٹ کے منظور ہو جاتا ہے تو ٹیکس بلیک لسٹ ملکوں پر پابندیاں بھی عائد کی جائیں گی۔
فی الوقت یورپی یونین میں شامل 28 ممالک کی ٹیکس ہیون یا ٹیکسوں کی چھوٹ کے حوالے سے فہرست مختلف ہے اور اس حوالے سے پابندیاں لگانے کا فیصلہ انفرادی طور پر کیا جاتا ہے۔