حدیبیہ پیپر ملز کیس، سماعت ملتوی کرنیکی نیب کی درخواست مسترد
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی نیب کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حدیبیہ کیس کی سماعت کی۔ نیب نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کردیا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں نئے پراسیکیوٹر کی تقرری تک سماعت ملتوی کی جائے۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب کے موقف ملزمان کے خلاف ریفرنس پر اثرانداز ہوئے، ہمارا سوال ہے کہ یہ ریفرنس سرد خانے میں کیوں رکھا گیا، کیا یہ کیس اٹک قلعہ کے اندر چلایا گیا، کیا اٹک قلعہ میں عدالت بھی ہے، یہ کیس اٹک قلعہ میں کیوں چلایا گیا، کچھ تو وجوہات ہوں گی۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے کہا کہ وجوہات میرے علم میں نہیں۔ جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ کیا ملزمان کراچی میں زیرحراست تھے، کوئی حکم نامہ تو ہوگا جس کے تحت جیل میں مقدمہ چلایا گیا، اگر ملزم اٹک میں تھا تو طیارہ ہائی جیکنگ کیس کراچی میں کیسے چلا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہارون پاشا کو 265 اے کے تحت بری کیا گیا لیکن وجوہات نہیں لکھیں، اس وقت کون سی حکومت پاکستان کا نظم و نسق چلارہی تھی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس وقت چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف تھے۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ کیا جلاوطنی کی کوئی قانونی حیثیت ہے، مفرور کا تو سنا تھا یہ جلا وطنی کا حکم کیسا ہے؟، نواز شریف کی جلاوطنی کا حکم کس نے دیا۔ وکیل نیب عمران الحق نے کہا کہ معاہدے کے تحت نواز شریف کو باہر بھیجا گیا اور وہ خود ملک سے باہر گئے تھے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اگر نواز شریف خود باہر گئے تھے تو پھر تو ان کے خلاف مفرور کی کارروائی ہونی چاہیے تھی، اس کیس کے اندر نئے قواعد بنائے گئے، کیا نیب نے جلاوطنی کے سہولت کاری پر قانونی کارروائی کی۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کیا کل کوئی اور حکومت کسی دوسرے ملزم کو معاہدہ کر کے باہر جانے دے گی۔ وکیل نیب عمران الحق نے کہا کہ نواز شریف جیل کسٹڈی میں تھے۔
قبل ازیں کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جسٹس مشیر عالم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جس بنیاد پر آپ سماعت ملتوی کرانا چاہتے ہیں یہ کوئی نکتہ نہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کا مذاق نہ اڑائیں، کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں، ہمارے لیے ہر کیس ہائی پروفائل ہے، اگر نیب سے کوئی لاء افسر پیش نہیں ہو سکتا تو پھر استعفا دے دیں، التواء کی درخواست دائر کرنے کا حکم کس نے دیا۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے بتایا کہ التواء کی درخواست کا فیصلہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں اجلاس میں ہوا، کیس کی پیروی کے لیے نئے پراسیکیوٹر جنرل کے نام کی سمری بھیجی ہوئی ہے، جلد منظور ہو جائیگی، مناسب ہوگا اس ہائی پروفائل کیس میں پراسیکیوٹر جنرل خود پیش ہوں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیس تو ملتوی نہیں ہو گا، کیوں نہ چیئرمین نیب کو بلا کر پوچھ لیا جائے۔ واضح رہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں شریف خاندان پر ایک ارب 20 کروڑ روپے کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کا الزام عائد ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے 1990ء کی دہائی میں اپنی ’حدیبیہ پیپر ملز‘ کے ذریعے 1.24 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی۔ مقدمے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعترافی بیان دیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ شریف برادران کے لیے منی لانڈرنگ میں ملوث تھے۔ اکتوبر 1999 میں فوجی بغاوت کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے خلاف کرپشن کے 3 ریفرنسز دائر کیے تھے جن میں سے ایک حدیبیہ پیپر ملز کیس بھی تھا۔ 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں حدیبیہ پیپرز ملزکیس میں نیب کی تحقیقات کو کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد احتساب عدالت نے اس ریفرنس کو خارج کردیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کی سماعت کے دوران حدیبیہ ریفرنس کا معاملہ دوبارہ سامنے آگیا۔ نیب نے رواں سال 20 ستمبر کو یہ کیس دوبارہ کھولنے کےلیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس میں نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، شمیم اختر اور صاحبہ شہباز کو فریق بنایا گیا ہے۔ نیب نے موقف اختیار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے حقائق کو دیکھے بغیر اس کیس میں فیصلہ دیا، پاناما لیکس کی جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں نئے حقائق سامنے آئے ہیں اس لیے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نیب کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا جائے۔