تعلیم و ٹیکنالوجی

عطارد کے سورج کے سامنے سے سفر کا نظارہ

مغربی یورپ، شمال مغربی افریقہ اور شمالی و جنوبی امریکہ میں بسنے والوں نے نظامِ شمسی کے سب سے چھوٹے سیارے عطارد کا نظارہ کیا ہے۔

عطارد نے پیر کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق دن 11 بج کر 12 منٹ سے لے کر شام چھ بج کر 42 منٹ تک زمین اور سورج کے بالکل درمیان سفر کیا۔

اس قسم کا واقعہ ایک صدی میں 13 یا 14 مرتبہ ہی ممکن ہوتا ہے اور سورج کے گرد گردش کرنے والے اس سیارے کو دیکھنے کا ایسا موقع پیر کے بعد سنہ 2019 اور پھر سنہ 2032 میں ملے گا۔

اس نظارے کو دوربین یا بغیر کسی آلے کے دیکھنا ناممکن اور خطرناک بھی تھا تاہم دنیا بھر میں علمِ فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے گروہوں اور تنظیموں کی جانب سے خصوصی فلٹر والی طاقتور دوربینوں کی مدد سے یہ نظارہ دیکھنے کا اہتمام کیا گیا۔

اس کے علاوہ زمین پر نصب اور خلا میں موجود دوربینوں کی مدد سے بھی اس منظر کو براہ راست نشر کیا گیا۔

عطارد ایک چھوٹی سیاہ ڈسک کی مانند دکھائی دیا جو سورج کے دیگر دھبوں کی نسبت زیادہ گہرے رنگ کی تھی اور اس دھبہ نما سیارے آہستہ آہستہ سورج کے سامنے سے اپنا سفر مکمل کیا۔

عطارد سورج کے گرد اپنا ایک چکر 88 دنوں میں مکمل کرتا ہے تاہم چونکہ اس کا مدار زمین کی نسبت کچھ ٹیڑھا ہے اس لیے کبھی کبھار ہی زمین، عطارد اور سورج خلا میں ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں۔

عطارد کے اس ساڑھے سات گھنٹے کے سفر کو مغربی یورپ، شمال مغربی افریقہ اور شمالی و جنوبی امریکہ میں مکمل طور پر دیکھا گیا جبکہ آسٹریلیا، مشرقِ بعید اور انٹارکٹکا میں موجود افراد اس نظارے سے بالکل محظوظ نہیں ہوسکے۔

چونکہ عطارد ایک چھوٹا سیارہ ہے اور اس کا حجم زمین کے ایک تہائی ہے، اس لیے خلا میں اسے انتہائی طاقتور دوربینوں کی مدد سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔

اوپن یونیورسٹی کے استاد اور عطارد کے ماہر پروفیسر ڈیوڈ رادری کا کہنا ہے کہ یہ فلکیاتی مظہر خود اپنی جگہ ایک قابلِ دید چیز ہے لیکن اس سے عطارد کے بارے میں ایسا کچھ معلوم نہیں ہونے والا جو سائنسدان پہلے سے نہ جانتے ہوں۔

امریکی خلائی ادارہ ناسا اب تک عطارد کی جانب دو مہمات بھیج چکا ہے۔ میرینر 10 نامی خلائی جہاز 1974 اور 1975 میں عطارد کے قریب سے گزرا تھا اور پھر میسنجر نامی خلائی جہاز نے سنہ 2015 میں چار ماہ عطارد کے مدار میں گزارے تھے۔

پروفیسر رادری کا کہنا ہے کہ ’میسنجر سے ہمیں بہت معلومات ملی تھیں جن سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہم عطارد کو نہیں جانتے کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی تھیں جو ہم نہیں سمجھ سکے تھے۔‘

ان کے مطابق ’یہ ایک بغیر ہوا کا سیارہ ہے جس میں بہت بڑے گڑھے ہیں اور جہاں آتش فشانی اور زلزلے معمول ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ عطارد کی سطح پر بہت کم لوہا ہے لیکن اس کے مرکزی حصے میں لوہے کی موجودگی لازم ہے اور اس کا ثبوت اس کا مقناطیسی میدان ہے جو زہرہ، مریخ یا چاند پر موجود نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close