لتا کی خواہش پر رکشے پر غلاف ڈال دیا
جنوبی ایشیا کی نامور گلوکارہ لتا منگیشکر کی خواہش پر ماسٹر اسلم نے رکشہ چلانا چھوڑ دیا ہے اور رکشے پر غلاف چڑھا دیا ہے۔
لتا نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ’یہ فنکار رکشہ نہ چلائے بلکہ مائیک کے سامنے ہو‘۔
ماسٹر اسلم کے ایک ویڈیو کلپ نے سوشل میڈیا میں دھوم مچا دی۔ اس ویڈیو میں انھوں نے استاد بڑے غلام علی خان کی ٹھمری ’یاد پیا کی آئے، یہ دکھ سہا نہ جائے‘ گائی تھی۔ یہ ویڈیو کلپ لتا منگیشکر تک جا پہنچی اور ان کا تبصرہ سامنے آیا۔ ان کے یہ الفاظ ماسٹر اسلم کی مزید مقبولیت کا باعث بنے۔
ماسٹر اسلم گذشتہ دو برس سے رکشہ چلا رہے تھے اور زندگی کے ساتھ سڑک کے حادثات کا بھی سامنا کرتے رہے ہیں۔ ایک ایسے ہی حادثے میں ان کی انگلی ٹوٹ گئی جو اب اکڑ چکی ہے۔ بقول ان کے اگر کہیں رکشہ خراب ہوجاتا تھا تو دو دو میل گرمی میں گھسیٹ کر لے جانا پڑتا تھا۔
ماسٹر اسلم کو جس ویڈیو کلپ سے مقبولیت حاصل ہوئی وہ ان کے دوستوں نے بغیر بتائے بنائی اور فیس بک پر ڈالی اور انہیں ایک ماہ قبل امریکہ سے دوست نے ٹیلیفون کرکے اس ویڈیو کی مقبولیت کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔گلشن اقبال میں رات کو دوست ایک ہوٹل پر جمع ہوتے ہیں۔ اس روز میں وقت سے پہلے وہاں پہنچ گیا اور استاد بڑے غلام علی خان کی ٹھمری گنگنانے لگا۔ اسی دوران پیچھے سے آواز آئی کہ تھوڑا زور سے۔ میں نے سوچا چلو کوئی سن رہا ہے تو زور سے گانا شروع کردیا۔‘
ماسٹر اسلم کا کہنا ہے کہ اگر وہ ان کے سامنے ویڈیو کلپ ریکارڈ کرتے تو ہوسکتا وہ ان سے لڑتے کہ ’تم میرا مذاق بنا رہے ہو‘۔ جب یہ ویڈیو مقبول ہوئی تو انہی دوستوں نے آکر بتایا کہ یہ مقبول ویڈیو انہوں نے بنائی تھی۔
ماسٹر اسلم گلستان جوہر میں واقع دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے ہیں۔ ان کا خاندان بھارت کے پٹھان کوٹ سے ہجرت کرکے حیدرآباد منتقل ہوا اور اس کے بعد وہ کراچی آگئے۔ بقول ان کے پاکستان میں آج بھی ان کا اپنا گھر نہیں۔
60 سالہ ماسٹر اسلم کی پیدائش حیدرآباد میں ہوئی، گلوکاری کے شوق پر انھیں والد کی ناراضی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایک روز ان کی آواز گوالیار خاندان کے گائیک بھائیوں استاد حمید علی خان اور استاد فتح علی خان تک جا پہنچی ۔
’میں نے جیب خرچ جمع کی اور ان کے پاس جاکر کہا کہ مجھے شاگرد بنالیں۔ ایک مہینے تک ان کے پاس جاتا رہا، اسی دوران والد کا انتقال ہوگیا۔ بہن بھائی چھوٹے تھے استاد نے بھی یہ ہی مشورہ دیا کہ مجھے ان کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ میں نے درزی کا کام سیکھ رکھا تھا اور میں دکان پر چلا گیا، اسی وجہ سے میرا نام ماسٹر اسلم پڑ گیا۔
ماسٹر اسلم سلائی مشین کی مدد سے چھوٹے بھائیوں کی پرورش میں مصروف ہوگئے۔ جب بھائی بڑے ہوئے اور ملازمت کرنے لگے تو انھیں کچھ ریلیف ملا اور وہ کراچی آگئے۔ یہاں انھوں نے پی ٹی وی پر پرفارمنس کے لیے کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے بالآخر انھیں نجی ٹی وی چینل این ٹی ایم پر اپنی صلاحیت دکھانے کا موقع ملا۔
’میں میوزک چیلینج کے نام سے پروگرام میں منتخب ہوگیا۔ وہاں میں نے پہلا گیت ’حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں‘ گایا۔ مقابلے کا پہلا مرحلہ جیت لیا اس طرح فائنل تک پہنچ گیا، جس میں شازیہ منظور اور نعیم عباس روفی اور دیگر کلوکاروں سے مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے کے ججز نثار بزمی، استاد فتح علی خان اور امانت علی خان تھے تاہم میں چوتھے نمبر پر آیا۔‘
میوزک چیلینج کے بعد ماسٹر اسلم کو کام ملنے لگا لیکن کراچی کی بدامنی نے ان کے بڑھتے قدم روک دیے۔ بقول ماسٹر اسلم کے جیسے کریئر کو بریک لگ گئیں اور وہ پھر ٹیلرنگ کرنے لگ گئے۔
پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی آمد کے بعد ماسٹر اسلم کو ایک چینل پر پس منظر کے صدا کار کی ملازمت مل گئی اور انھوں نے خواب بننا شروع کردیے۔
’یہ خیال آیا کہ تھوڑے بہت پیسے آئیں گے تو چھوٹا سا گھر لوں گا اور سیکھنے کا بھی موقع مل جائے گا۔ لیکن گاتے گاتے لمبے لمبے سانس آنا شروع ہوگئے اور دماغ گھومنے لگا۔ اس سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوگیا جو بچا تھا وہ ڈاکٹروں اور ادویات پر خرچ ہوگیا۔‘
ماسٹر اسلم نے طبیعت میں بہتری آنے کے بعد دوبارہ چینل سے رابطہ کیا لیکن کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ انھوں نے دوبارہ رکشہ چلانا شروع کردیا۔ حالیہ دنوں ویڈیو کلپ کی مقبولیت کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکرپرسن نے انہیں ماہانہ معاوضے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ بقول ماسٹر اسلم ابھی تک وعدے ہی چل رہے ہیں۔
ماسٹر اسلم نے ایک پرانا ہارمونیم بھی لے کر رکھا ہے اور استاد ادریس انہیں سروں کا اتار چڑھاؤ سکھا رہے ہیں۔ انہیں شوق ہے کہ وہ ایک باقاعدہ پروفیشنل گلوکار بن جائیں لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ حالات انہیں اس کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ بصورت دیگر رکشے پر موجود دھول زدہ غلاف وہ خواہشات پر اوڑھ لیں گے۔