بلاگ

کم عمری کی شادیوں کیخلاف آگاہی مہم

لاہور: پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران ایک بار پھرسینیٹ میں کم عمری کی شادی کے قانون میں ترمیم کا بل پیش کریں گی جسے اکتوبر میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور نے ’غیر اسلامی‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ سینیٹر سحر کامران کے اس بل کے بارے میں آگاہی کے لیے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین نے فیشن ڈیزائنر علی ذیشان کے ساتھ مل کر ایک انوکھا طریقہ اپنایا۔ اتوار کو لاہور میں ہونے والے عروسی ملبوسات کی نمائش کے فیشن شو میں ایک کم عمر بچی کو بطور ماڈل پیش کیا گیا جس نے آرائشی کام سے لیس اسکول یونیفارم زیب تن کیا ہوا تھا اور بچی نے خود ایک دلہن کی طرح میک اپ اور زیورات پہنے ہوئے تھے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق آگاہی کی اس مہم کے لیے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ برائیڈل یونیفارم کا استعمال کیا گیا اور معروف شخصیات نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کی جانب سے بنائی گئی پٹیشن پر دستخط بھی کیے۔ بچوں کے امور کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق 21 فیصد لڑکیوں کی 18 برس کی عمر تک شادی ہو چکی ہوتی ہے جبکہ تین فیصد لڑکیوں کی 15 برس سے کم عمر میں شادی ہو جاتی ہے۔ یونیسیف کے مطابق کم عمری میں شادی کی وجہ سے بچے اپنا بچپنا کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی نہ صرف پڑھائی متاثر ہوتی ہے بلکہ کم عمری میں شادی ان کی صحت پر شدید اثرانداز ہوتی ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کو گھریلو تشدد اور زبردستی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں عموماً پسماندہ علاقوں میں بچوں کی کم عمری کی شادی کو رسم و رواج کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ کہیں ’ونی‘ کہیں ’سوارہ‘ تو کہیں کسی اور روایت کے تحت بھی کم عمر بچوں کو بیاہ دیا جاتا ہے۔ تاہم جنوبی پنجاب میں کم عمری کی شادی کا رجحان باقی صوبے سے نسبتاً زیادہ ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب حکومتی ایوانوں میں اس قانون میں ترمیم کا بل مسترد کیا گیا ہو۔ جنوری 2016 میں حکومتی رکن ماروی میمن کا پیش کیا ہوا بل بھی ’غیر اسلامی‘ قرار دے کر مسترد ہو گیا تھا کیونکہ اُس وقت اسلامی نظریاتی کونسل نے مجوزہ قانون پر اپنی تجویز دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسلامی ریاست میں شادی کے لیے کم سے کم عمر مقرر کرنا توہین رسالت کے مترادف ہے۔‘ اس سال مئی میں بھی قومی اسمبلی نے ترمیمی بل کو مسترد کر دیا تھا جس میں لڑکیوں کے لیے کم سے کم شادی کی عمر 18 برس متعین کرنے کی تجویز تھی۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں رائج کم عمری کی شادیاں روکنے کا قانون ’چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929‘ کے مطابق لڑکے کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال جبکہ لڑکی کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 16 سال ہے۔ موجود قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سندھ اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں نے کم عمری میں شادیوں کو خلاف ترمیمی بل کی منظوری دیتے ہوئے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے اور سزاؤں میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close