کانگریس کے اہم ارکان پاکستان کو فوجی امداد دینے کے حق میں نہیں‘
مریکہ کے دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی کانگریس کے اہم ارکان پاکستان کو امریکی فوجی امداد دینے کے حق میں نہیں ہیں۔
امریکی دفترِ خارجہ کی بریفنگ کے دوران پاکستان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پریس ڈائریکٹر الزبتھ ٹروڈو نے کہا کہ وہ واضح کر دینا چاہتی ہیں کہ ’ کانگریس کے اہم ارکان کچھ مخصوص حالات کے علاوہ پاکستان کو امریکی فوجی امداد دینے کے حق میں نہیں ہیں۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی نے پاکستان کے لیے امریکی امداد کی فراہمی پر عائد شرائط سخت کی ہیں اور کہا ہے کہ جب تک امریکی دفترِ خارجہ اس بات کی تصدیق نہیں کرتا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف مناسب کارروائی کر رہا ہے اسے کوالیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 45 کروڑ ڈالر ادا نہیں کیے جا سکتے۔
الزبتھ ٹروڈو کا یہ بھی کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں امریکی موقف واضح ہے اور امریکی محکمۂ خارجہ کانگریس کے ساتھ مل کر اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کو سکیورٹی کی مد میں مدد دینے کے لیے پرعزم ہے۔
ادھر پاکستان کے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی مدد کے الزامات تو لگائے جاتے ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا جاتا۔
انھوں نے یہ بات جمعرات کو سینیٹ میں امریکہ سے ایف 16 طیاروں کی خریداری کے معاملے پر پالیسی بیان کے دوران کہی۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کا معاملہ فی الوقت بھی پاکستان کے حوالے سے امریکہ کو لاحق سب سے اہم تشویش ہے جبکہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ماضی قریب میں زوال پذیر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کے معاملے پر امریکہ میں موجود انڈین لابی بھی جلتی پر تیل پھینکنے کا کردار ادا کر رہی ہے اور پٹھان کوٹ کے واقعے کے بعد اس میں تیزی آئی ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ ’امریکی حکام، کانگریس، وہاں کے تھنک ٹینک اور ذرائع ابلاغ ہمارے دشمنوں کے ساتھ مل کر پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی مدد کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن وہ ایسا کوئی بھی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں پائے جس کی مدد سے ہم حقانی نیٹ ورک یا دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مزید کارروائی کر سکیں۔‘
پاکستان کے ایوانِ بالا میں بیان کے دوران مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے یہ بھی کہا کہ گذشتہ تین ماہ میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات زوال پذیر رہے ہیں اور امریکی کانگریس کی جانب سے آٹھ ایف 16 طیاروں کے لیے جزوی مالی امداد روکنے کا فیصلہ اسی کا عکاس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کے اس فیصلے کی وجہ امریکہ کی جانب سے جوہری معاملات پر اٹھائے جانے والے خدشات بھی ہو سکتے ہیں تاہم پاکستان ان خدشات کو مکمل طور پر رد کرتا ہے۔
سرتاج عزیز کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان امریکی کانگریس کی جانب سے اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی میں امریکیوں کی مبینہ طور پر مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے مطالبات مسترد کرتا رہا ہے۔
مشیرِ خارجہ نے کہا واشنگٹن میں انڈین لابی بھی پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فروخت رکوانے کے لیے انتھک کوششیں کرتی رہی ہے اور سینیٹر رینڈ پال کی قرارداد اس کا ثبوت ہے تاہم پاکستان امریکہ کی جانب سے اسے ایف 16 طیاروں کی فروخت پر انڈین اعتراضات مسترد کر چکا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے احکامات پر امریکی حکام نے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی خریداری کی مد میں دی جانے والی امداد روک لی ہے۔
اس پابندی کے نتیجے میں پاکستان کو آٹھ ایف 16 طیارے خریدنے کے لیے 70 کروڑ ڈالر کی ساری رقم خود ادا کرنا ہوگی۔ اس سے قبل اس میں سے تقریباً 43 کروڑ ڈالر امریکی مدد کے تحت پاکستان کو ملتے اور تقریباً 27 کروڑ پاکستان خود ادا کرتا۔