روپے کی قدر میں کمی لا حاصل؛ بلند پیداواری لاگت برآمدی آرڈرز کے حصول میں رکاوٹ
فرینکفرٹ: پاکستان کی بڑی ایکسپورٹ کمپنیوں کے علاوہ ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پویلین کے تحت شرکت کرنے والی چھوٹی کمپنیوں کو بھی بڑے آرڈرز کی پیشکش ہوئی ہے تاہم پاکستانی کمپنیاں چین، بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پیداواری لاگت زائد ہونے کی وجہ سے برآمدی آرڈرز حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
ایکسپورٹرز کے مطابق پاکستانی ہوم ٹیکسٹائل مصنوعات بیڈ لینن، تولیہ کی مصنوعات کے علاوہ اسپتالوں میں استعمال ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات میں یورپی خریدار گہری دلچسپی ظاہر کررہے ہیں تاہم گزشتہ ایک سال کے دوران یارن، کاٹن کے نرخ بڑھنے سے ہوم ٹیکسٹائل کی پیداواری لاگت 15سے 20 فیصد بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ایکسپورٹرز کو سودے طے کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
نمائش میں ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تحت شرکت کرنے والی شہاب ٹیکسٹائل کے چیف ایگزیکٹو شیخ علی احمد صادق نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں بتایا کہ کینیڈا میں پاکستانی مصنوعات پر 18فیصد ڈیوٹی عائد ہے جبکہ بنگلہ دیش کو صفر ڈیوٹی کی سہولت حاصل ہے، ہیم ٹیکسٹائل نمائش میں پاکستانی مصنوعات کو اگرچہ بھرپور رسپانس مل رہا ہے لیکن پاکستانی کمپنیاں بلند لاگت کی وجہ سے مار کھا رہی ہیں اور خریداروں کو چین ،بھارت، بنگلہ دیش، ترکی، ویتنام اور مصر کے مقابلے میں پرکشش قیمت آفر نہیں کی جا رہیں اور ایکسپورٹ کے بڑے آرڈرز ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔
شیخ علی احمد صادق نے کہا کہ روپے کی قدر میں حالیہ کمی سے بھی لاگت میں اضافہ ہوا ہے، ڈالر کی قیمت 5 فیصد بڑھی لیکن درآمدی میٹریل کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے، دوسری جانب دو سے تین مہینوں میں یارن اور کاٹن کی قیمت 20 سے 25فیصد تک بڑھ گئی جس سے روپے کی قدر میں اضافے کا اثر بھی زائل ہوگیا، لاگت بڑھنے کی وجہ سے جی ایس پی پلس کی سہولت سے بھی استفادہ نہیں کر سکتے، بھارت نے پاکستان کو ملنے والی جی ایس پی پلس سہولت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی انڈسٹری کو غیراعلانیہ مراعات دی ہیں۔
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پویلین میں شرکت کرنے والی انصاف انٹرپرائز کے ڈائریکٹر محمد عادل طارق نے بتایا کہ نمائش کے دوران یورپی خریداروں کی جانب سے بھرپور رسپانس ملا ہے اور اب مغربی یورپ کے ساتھ مشرقی یورپ کے ممالک رومانیہ، سربیا سے بھی دلچسپی ظاہر کی جارہی ہے، کمپنی نیدرلینڈ، اٹلی، بلجیم اور جرمنی کو تولیہ مصنوعات ایکسپورٹ کررہی ہے، نمائش میں زیادہ تر پرانے خریداروں سے آرڈرز مل رہے ہیں۔ چین اور بھارت سے مسابقت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ آرڈرز کا تمام تر انحصار اچھی قیمت پر ہوتا ہے جس کے لیے پیداواری لاگت کا کم رہنا بہت ضروری ہے۔
ملٹی میٹ انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفر سعید نے بتایا کہ پرانے خریدار نے اسپینش مارکیٹ کے لیے بڑے آرڈر کی پیشکش کی ہے، اسپین کے خریدار گزشتہ آرڈر کے مقابلے میں بمشکل تین سے چار فیصد اضافہ کرنے کو تیار ہیں تاہم لیکن بنگلہ دیش کے مقابل 1سال میں لاگت 15سے 20فیصد بڑھنے کی وجہ سے اپنا مارجن کم کرنے کے باوجود قیمت 10فیصد بڑھانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جس کی وجہ سے آرڈر ملنے میں دشواری ہورہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نمائش میں اسپین کے علاوہ پولینڈ اور البانیہ سے نئے خریداروں نے دلچسپی ظاہر کی ہے، اٹلی اور جرمنی پرانے اور ریگولر خریدار ہیں۔
ظفر سعید نے کہا کہ مسلسل بڑھتی ہوئی لاگت یارن اور کاٹن کی قیمتوں میں عدم استحکام پاکستانی ہوم ٹیکسٹائل کی برآمدات کو متاثر کررہا ہے، اگر یارن اور کاٹن کی قیمتوں کو ایک خاص مدت کے لیے مستحکم رکھا جائے تو ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ میں 200فیصد اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ نمائش میں شرکت کرنے والی پاکستان کی بڑی ایکسپورٹ کمپنیوں کو بھرپور رسپانس ملا ہے لیکن بلند پیداواری لاگت اور پالیسیوں میں عدم تسلسل کا مسئلہ بڑے گروپس کو بھی متاثر کررہا ہے۔
گل احمد کے اسٹال پر بات کرتے ہوئے چیئرمین محمد بشیر نے بھی بڑھتی ہوئی لاگت اور پالیسیوں میں عدم تسلسل کو بڑا مسئلہ قرار دیا، بنگلہ دیش اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں یوٹیلٹیز کی لاگت دگنی ہے، اس کے ساتھ ہی انڈسٹری کے لیے حکومتی سطح پر قلیل مدتی پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں، پاکستان کے برعکس بھارت میں 5سال کی صنعتی و تجارتی پالیسی اختیار کی جاتی ہے اور ایک سے دوسری حکومت پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھتی ہے جس سے ایکسپورٹرز کے لیے بھی طویل مدتی سودے کرنا ممکن ہوتا ہے، اب پاکستان میں حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو صرف جون 2018کے اختتام تک مراعات دی ہیں جبکہ ایکسپورٹرز اپنے خریداروں سے پورے سال کا کنٹریکٹ کرتے ہیں۔
محمد بشیر نے کہا کہ محدود مدت کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے خریداروں کے ساتھ طویل مدتی سودے نہیں کرسکتا اور یہی وجہ بھارت بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں کے ساتھ مسابقت میں آڑے آتی ہے، ہر حکومت کی پالیسی اور مراعات اپنے دور تک ہی محدود ہوتی ہے جبکہ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اور صنعتی ترقی طویل مدتی حکمت عملی اور مسلسل پالیسیوں کا تقاضہ کرتی ہے، بین الاقوامی خریدار بھی پاکستان کی آئندہ 5سال کی پالیسی کے بارے میں سوالات کرتے ہیں تاکہ طویل مدتی سودے کرسکیں، اسی طرح خود پاکستانی سرمایہ کار بھی حکومت کی طویل مدتی اور مستحکم پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتے ہیں۔
چیئرمین محمد بشیر نے کہا کہ ہوم ٹیکسٹائل کی صنعت میں پاکستان مہارت اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھارت سے آگے ہے، پاکستان کو جی ایس پی پلس کی سہولت سے بھی فائدہ ہوا ہے، ہوم ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 10فیصد سے زائد گروتھ دیکھی جارہی ہے، پاکستان کے پاس ہوم ٹیکسٹائل ایکسپورٹ بڑھانے کے وسیع مواقع موجود ہیں تاہم ہم خریداروں کو طویل مدتی اور مستحکم پرائس آفر نہیں کرپارہے۔