اسلام کی رو سے شدت پسندی اور خودکش حملے حرام ہیں، ممنون حسین
اسلام آباد: صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا ہے کہ خودکش حملوں کے خلاف علما کا فتویٰ (پیغام پاکستان) اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے جس پر عملدرآمد سے انتہا پسندی کے فتنے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
پاکستان کے تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے 1829 علمائے کرام کے خودکش حملوں سے متعلق فتوے کی رونمائی کی تقریب ایوان صدر میں کی گئی، اس فتوے کو’پیغام پاکستان’ کا نام دیا گیا ہے۔
تقریب میں سیاسی شخصیات سمیت علما کی بڑی تعداد موجود تھی، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ اسلام کی روح سے شدت پسندی، خون ریزی اور خودکش حملے فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں جو ناجائز اور حرام ہیں۔
صدر ممنون حسین نے کہا کہ میری نظر میں علماء کا فتویٰ اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے جس پر عملدرآمد سے انتہا پسندی کے فتنے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ خوشی ہے کہ فتوے کو متعلقہ ریاستی اداروں کی تائید بھی حاصل ہے اور یہ اتفاق رائے ہی ہماری کامیابی کی کلید ہے۔
وزیرداخلہ احسن اقبال نے اپنے خطاب کہا کہ متفقہ بیانیہ مرتب کرنے پر تمام فریقین کے شکر گزار ہیں، آج ہم بڑی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ پیغام پاکستان ہمیں متحد کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرے گا، جب بیانیہ منتشر ہوتا ہے تو تنازعات جنم لیتے ہیں، ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست کے لیے ہمیں متحد ہو کر آگے بڑھنا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ مستقبل کی سمت درست کرنے کے لیے تعلیمی انقلاب کا خیرمقدم کرنا ہوگا، افسوس ہے کہ صنعتی انقلاب کی دستک کو اسلامی ممالک نے نہیں سمجھا اور مغربی ممالک نے اسے سمجھ کر ترقی کی۔
علما کا فتویٰ ( پیغام پاکستان)
فتوے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے نام پر ریاست کیخلاف مسلح تصادم حرام اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنا فساد فی الارض ہے۔
فتوے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے تمام مسالک کے علماء شرعی دلائل کی روشنی میں خودکش حملوں کو حرام قرار دیتے ہیں، خود کش حملے کرنے، کرانے اور ان کی ترغیب دینے والے اسلام کی رو سے باغی ہیں اور ریاست پاکستان ایسے عناصر کیخلاف کارروائی کرنے کی شرعی طور پر مجاز ہے۔
فتوے میں کہا گیا ہے کہ جہاد کا وہ پہلو جس میں جنگ اور قِتال شامل ہیں صرف اسلامی ریاست شروع کر سکتی ہے، کسی فرد یا گروہ کے ایسے اقدامات ریاست کیخلاف بغاوت تصور کیئے جائیں گے، جو اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی سنگین اور واجب التعزیر جرم ہے۔
فتوے میں کہا گیا کہ طاقت کے بل پر اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنا بھی شریعت کے منافی اور فساد فی الارض ہے اور حکومت اور اس کے ادارے ایسی سرگرمیوں کے سدباب کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں۔
فتوے کی تیاری اور بنیادی نکات
1829 علمائے کرام کی جانب سے جاری کیے جانے والے متفقہ فتوے کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ اس فتوے کو حاصل کرنے کے لیے گزشتہ کئی مہینوں سے مختلف علمائے کرام اور اداروں کی اہم شخصیات کوششیں کررہی تھیں۔
سلیم صافی کے مطابق یہ فتویٰ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام تیار کیا گیا ہے۔ پہلے اس فتوے کا بنیادی متن 30 سے زائد علمائے کرام نے تیار کیا جن میں مفتی منیب الرحمٰن، مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا عبدالمالک، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مولانا حنیف جالندھری اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دیگر علمائے کرام شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پھر اس فتوے پر ملک بھر کے مختلف مسالک اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے 1829 علمائے کرام کے دستخط لیے گئے۔
فتوے کے بنیادی نکات کی تفصیلات بتاتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ پہلا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ تمام علمائے کرام نے متفقہ طور پر برداشت اور اسلام کے نام پر انتہاپسندانہ سوچ اور شدت پسندی کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فکری سوچ جس جگہ بھی ہو ہماری دشمن ہے اور اس کے خلاف دینی اور فکری جدوجہد دینی تقاضہ ہے۔
خود کش حملے
سلیم صافی نے بتایا کہ فتوے میں خود کش حملوں کو تین حوالوں سے حرام قرار دیا گیا ہے۔
علمائے کرام نے فتوے میں کہا ہے کہ، ’’ہم پاکستان کے تمام مسالک و مکتبہ فکر کے علماء شرعی دلائل کی روشنی میں اتفاق رائے سے پاکستان میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیتے ہیں اور ہماری رائے میں خودکش حملے کرنے والے، کروانے والے، ان حملوں کی ترغیب دینے والے اور ان کے معاون پاکستانی شہری اسلام کی رو سے باغی ہیں اور ریاست پاکستان شرعی طور پر اس قانونی کارروائی کرنے کی مجاز ہے جو باغیوں کے خلاف کی جاتی ہے‘‘۔
سلیم صافی نے بتایا کہ فتوے میں حکومت اور افواج پاکستان کے خلاف ہر طرح کی عسکری کارروائیوں یا مسلح طاقت کے استعمال کو شرعی لحاظ سے حرام قرار دیا گیا ہے۔
جہاد کا اعلان
فتوے میں جہاد کے حوالے سے موجود مواد کی تفصیلات بتاتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ جہاد کے بارے میں یہ چیز واضح کی گئی ہے کہ جہاد کا اعلان کرنا ریاست اور حکومت پاکستان کا حق ہے، جہاد کا وہ پہلو جس میں جنگ اور قتال شامل ہیں، اسے شروع کرنے کا اختیار صرف اسلامی ریاست کا ہے، کسی فرد یا گروہ کو اس کا اختیار حاصل نہیں۔ کسی بھی فرد یا گروہ کے ایسے اقدامات کو ریاست کی حاکمیت میں دخل اندازی سمجھا جائے گا اور ان کے یہ اقدامات ریاست کے خلاف بغاوت تصور کیے جائیں گے جو اسلامی تعلیمات کی رو سے سنگین اور واجب التعزیر جرم ہے۔
فرقہ واریت
تجزیہ کار سلیم صافی نے مزید بتایا کہ فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے فتوے میں کہا گیا ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کے منافی اور فساد فی الارض ہے۔
سلیم صافی نے کہا کہ ان کے خیال میں آئین پاکستان کے بعد یہ بہت بڑی مقدس دستاویز بنادی گئی ہے جس میں اس وقت پاکستان، عالم اسلام اور مسلمانوں کو درپیش جو بنیادی سوالات ہیں ان کے جواب قرآن و سنت کی روشنی میں متفقہ طور پر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس فتوے کے ساتھ ایک اعلامیہ بھی ہے جس میں مختلف علماء نے فتوے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جبکہ اس حوالے سے جامعہ نعیمیہ کا ایک فتویٰ بھی اس کتاب کا حصہ بنادیا گیا ہے جسے ’’کتابِ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اسے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع کیا گیا ہے۔
سلیم صافی کے مطابق جن 1829 علماء نے اس فتوے پر دستخط کیے ہیں ان سب کی تفصیلات بھی کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔