چیبوک کی لڑکیوں کی بازیابی پر نائجیریا میں اتنی سرگرمی کیوں؟
نائجیریا میں دو سال کی خاموشی کے بعد رواں ہفتے یہ بڑی خبر آئی کہ چیبوک سے اغوا کی جانے والی سکول کی لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کو فوج کی حمایت والے نگراں گروپ کے سبب رہائی ملی ہے۔
اس سے قبل نائجیریا کی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے بعض لڑکیوں کو بازیاب کیا ہے لیکن بعد میں انھوں نے اپنے دعوے کو مسترد کر دیا۔
سنہ 2014 میں اسلام پسند جنگجو گروپ بوکو حرام کے ذریعے اغوا کیے جانے کے بعد اس وقت فوج کے سربراہ ایلکس بادہ نے کہا تھا کہ فوج کو یہ پتہ ہے کہ لڑکیاں کہاں ہیں اور انھیں جلد ہی چھڑا لیا جائے گا۔
لیکن ایسا ہو نہ سکا اور مغربی اتحاد نے بھی مبینہ طور پر یہ شکایت کی کہ نائجیریا نے ان کی فراہم کردہ معلومات پر عمل نہیں کیا۔
سرکاری بیان کے مطابق چیبوک کی لڑکی کو ایک فوجی آپریشن کے دوران بچایا گیا ہے۔
لیکن ذرائع نےبتایا کہ اسے ایک گاؤں کے نگراں گروپ نے اس وقت بچایا جب وہ بوکو حرام سے بھاگ کر پناہ حاصل کرنے آئی۔اور پھر وہاں سے اسے فوج کی تحویل میں لے لیا گيا اور نائجیریا کی حکومت سرگرم ہو گئی
اپنے خاندان سے ملاقات کے بعد لڑکی کو بورنو ریاست کی حکومت کے حوالے کیا گيا جہاں سے اسے صدر محمد بحاری سے ملاقات کے لیے طیارے کے ذریعے دارالحکومت ابوجا لے جایا گیا اور پھر وہ عالمی میڈیا کے سامنے تھی۔
اس وقت تک چار ماہ کے بچے اور ایک شخص کے ساتھ اس کی تصویر گردش کرنے لگی۔ اس شخص کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کا شوہر ہے۔
ناقدین کو اس بات پر غصہ ہے کہ اسے اس شخص سے محبت ہوگئی جو اس کا اغوا کرنے والا تھا۔
لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ آدمی خود قیدی تھا اور اسے بوکو حرام کی جانب سے لڑنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ اس شخص سے اس کی شادی کر دی گئی اور وہ اس کے ساتھ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئی۔
جبکہ بعض دوسرے لوگوں کا سوال ہے کہ اس کی اس آزمائش کے فوراً بعد ہی اسے میڈیا کے سامنے کیوں کیا گیا۔
اس کے بعد فوج نے مزید ایک اعلان کیا کہ انھوں نے ایک دوسری لڑکی بازیاب کی ہے۔ پہلی بازیابی کے فوراً بعد دوسری بازیابی کے دعوے پر شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
فوج نے ثبوت کے طور پر اس کا نام اور تصویر جاری کی لیکن پھر سوال اٹھنے لگے۔
فوج نے کہا کہ وہ اغوا کے وقت اپنے سیکنڈری سکول کے پہلے سال میں تھی لیکن یہ عام معلومات کا حصہ ہے کہ تمام لڑکیاں آخری سال کی تھیں جس میں ’میری لڑکیوں کو واپس لاؤ‘ جیسی مہم کی متحرک تھیں۔
گمشدہ لڑکیوں کے والدین کے نمائندوں نے کہا کہ وہ اسے نہیں پہچانتے اور وہ لڑکی گمشدہ لڑکیوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سکول کی طالبہ ضرور ہیں لیکن بوکوحرام نے انھیں کبھی کسی دوسری جگہ سے پکڑا