دنیا

ملا منصور کی ہلاکت ایک اہم سنگِ میل ہے

امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد اختر منصور کی ہلاکت افغانستان میں قیامِ امن کی دیرینہ کوششوں کے سلسلے میں ’اہم سنگِ میل‘ ہے۔

ویت نام کے دورے کے دوران صدر اوباما کی جانب سے جاری کیے گئے ایک تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ ان تمام شدت پسند نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کرتا رہے گا جو امریکہ کو نشانہ بناتے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق براک اوباما کا کہنا تھا کہ ملا منصور کی موت سے ایک ایسی تنظیم کے سربراہ کا خاتمہ ہوا ہے جو امریکی اور اتحادی افواج پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتی اور انھیں سرانجام دیتی رہی ہے اور اس نے افغان عوام کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔

اس سے قبل امریکی محکمۂ دفاع نے کہا تھا کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ پر فضائی حملہ کیا ہے اور اس بات کا ’غالب امکان ہے کہ ملا منصور اس حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔‘

ملا محمد اختر منصور سنیچر کو مبینہ طور پر پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ہونے والے ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

اتوار کو لندن پہنچنے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ حملے کے مقام سے ولی محمد نامی ایک شخص کا شناختی کارڈ ملا ہے جو قلعہ عبداللہ کا رہائشی ہے، البتہ افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق نہیں ہوئی۔

انھوں نے کہا تھا کہ امریکہ نے ملا اختر منصور کے بارے میں ڈرون حملے کے بعد آگاہ کیا تھا، اور امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے اس سلسلے میں ہفتے کی رات ساڑھے دس بجے ان سے ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی۔

اس سے قبل پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ امریکہ نے صوبہ بلوچستان میں مبینہ طور پر افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو نشانہ بنانے کے بارے میں مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اب تک جو معلومات اکٹھی کی گئی ہیں ان کے مطابق 21 مئی کو ولی محمد ولد شاہ محمد نامی شخص جس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ موجود تھا اور وہ تفتان سرحد سے پاکستان میں داخل ہوا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ولی محمد کے پاسپورٹ پر ایرانی ویزا موجود تھا، اور وہ تافتان سے ٹرانسپورٹ کمپنی سے کرائے پر لی ہوئی گاڑی پر سفر کر رہا تھا۔‘ دفتر خارجہ کہ مطابق گاڑی پاک افغان سرحد کے قریب کوچاکی کے مطابق پر تباہ حالت میں ملی ہے۔

’ان کے ڈرائیور کا نام محمد اعظم تھا جس کی لاش شناخت کے بعد ان کے رشتہ داروں کے حوالے کر دی گئی ہے۔ جبکہ وہاں سے ملنے والی دوسری لاش کی شناخت اس مقام سے ملنے والے شواہد اور دیگر معلومات کی بنیاد پر کی گئی ہے۔‘

محمد اعظم کا تعلق بلوچستان کے سرحدی ضلع چاغی کے ایران سے متصل سرحدی قصبے تفتان سے تھا۔کوئٹہ کے سول ہسپتال میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اعظم کے بھائی محمد قاسم اور چچا خدائے نظر نے بتایا کہ وہ گذشتہ آٹھ نو سال سے کوئٹہ اور تفتان کے درمیان ٹیکسی چلاتا تھا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close