سندھ

نشے میں دھت پولیس افسر نے بہن اور پڑوسن پہ پٹرول چھڑک کر آگ لگادی

عورت ماں کے روپ میں جنت، بہن کے روپ میں جاں نثار، بیٹی کی شکل میں رحمت اور بیوی ہو تو ہر دکھ و درد کا ساتھی ہے۔ ایک طرف تو عورت کو دنیا کے خوبصورت ترین خطابات اور القابات سے نوازا جاتا ہے، تو دوسری طرف وہ بیشتر معاشروں میں محض مردوں کے ہاتھوں پسنے والی ایک مظلوم ہستی کی صورت نظر آتی ہے، ویسے تو دنیا بھر میں ہی خواتین کا استحصال ہوتا ہے مگر ہم جیسے تیسرے درجے کے ممالک میں تو اس استحصال کی شرح کچھ زیادہ ہی ہے۔پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے صورت حال آج بھی مناسب نہیں، امتیازی قوانین آج بھی موجود ہیں، بدترین رسمیں آج بھی رائج ہیں، غیر قانونی پنچایتوں میں اسمبلی کے اراکین اور وزراء تک شریک ہوتے ہیں۔خواتین پر تشدد کے واقعات اگر میڈیا میں آجاتے ہیں تو پھر حکومت بھی حرکت کرتی دکھائی دیتی ہے بصورت دیگر کوئی نہیں پوچھتا۔ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں خواتین پر تشدد کے پے در پے 2واقعات رونما ہوئے، دونوں واقعات میں حوا کی بیٹیاں مرد کے متعصب ذہن کی بھینٹ چڑھ گئیں۔پہلا واقعہ سکھر کے گنجان آبادی والے علاقے بھٹہ روڈ پر پیش آیا۔ جہاں ایک شادی ہال میں پولیس اہلکار محبوب بھٹو کے بھتیجوں کی شادی تھی، جس میں پولس اہلکار نے ناپسندیدہ رشتہ داروں کو دیکھا تو اسے غصے آگیا اور اس نے اپنی بہن سے پوچھا کہ ان رشتہ داروں کو کیوں اور کس نے بلایا ہے؟ بہن کی جانب سے بھائی کو جواب دینے پر نشے میں دھت پولیس اہلکار آپے سے باہر ہوگیا اور اس نے پٹرول لاکر اپنی بہن نوشین اور اس کی حمایت کرنے والی پڑوسن اربیلی پر چھڑک کر انہیں آگ لگادی۔واقعہ کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا اور شادی کا گھر ماتم کدے میں تبدیل ہوگیا۔ اطلاع ملنے پر پولیس نے کارروائی کرکے وقتی طور پر تو ملزم کو گرفتار کرلیا اور متاثرہ خواتین کو علاج و معالجے کے لئے ابتدائی طبی امداد کے بعد کراچی روانہ کردیا گیا مگر چند روز بعد مذکورہ دونوں خواتین زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کی ابدی نیند سوگئیں۔بعد ازاں پولیس نے رسمی کارروائی کی اور چند دن گزرنے کے بعد مذکورہ پولیس اہلکار ضمانت پر رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی طرح کا دوسرا واقعہ سکھر کے نواحی علاقے صالح پٹ میں پیش آیا جہاں پر ملزم مشتاق بھٹی نے اپنی ہی برادری کی ایک خاتون مسمات نصیراں کے گھر میں گھس کر اس کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی، خاتون نے چیخ و پکار کی تو اہل محلہ جمع ہوگئے، جنہوں نے ملزم کو روکنے کی کوشش کی تو اس نے مشتعل ہوکر خاتون پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادی، جس سے خاتون کا چہرے سمیت جسم کا دس فیصد حصہ جھلس گیا۔ پولیس نے اس کارروائی میں بھی ملزم کو گرفتار تو کرلیا مگر بعد ازاں قانونی پیچیدگیوں اور متاثرہ خاتون کے ورثاء کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزم رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خواتین پر تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لئے حکومتوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً قانون سازی بھی کی جاتی ہے مگر آج تک اس طرح کے واقعات کی روک تھام میں کوئی کمی نہیں آسکی ہے جس کی بنیادی وجہ قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ قوانین بناتو دیے جاتے ہیں مگر ان قوانین پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا جبکہ اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو خواتین کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی نام نہاد این جی اوز کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں؟خواتین پر تشدد کے واقعات کی روک تھام اس وقت تک یقینی نہیں بنائی جاسکتی جب تک معاشرے میں بسنے والے افراد کی ذہنیت کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔ ہمیں یہ بات سمجھ میں آنی چاہیے کہ ہماری خواتین اور ہماری بچیاں پاکستان کا روشن مستقبل ہیں، وہ محفوظ پاکستان کی ضمانت ہیں، کوئی بھی قوم اور کوئی بھی ملک نصف سے زیادہ آبادی کو ترقی کی دوڑ میں شامل نہ کرکے یا گھر بٹھاکر ترقی نہیں کرسکتا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close