’الحمد اللہ ہمیں کوئی نکال باہر نہیں کرسکتا‘
سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نا انصافی سے معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا، ہماری ذمہ داری انصاف کرنا ہے اور الحمداللہ ہمیں کوئی نکال باہر نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما راجہ ظفرالحق بھی پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے عدالت اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی اور 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آئین ایک عمرانی معاہدہ ہے اور بہت مقدس ہے، ججز کو اختیار، آئین اور عدلیہ نے دیئے ہیں جبکہ عدلیہ اور فوج کو آئین نے تحفظ دیا ہے۔
عدالت میں دلائل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئین کا تحفظ اصل میں ملک کا تحفظ ہے، لوگوں کو معلوم ہے کہ عدلیہ پر حملہ کس نے کیا، عدالت اتنی رحم دلی نہ دکھائے کہ ریاست کو جھیلنا پڑے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ لوگ اپنے خلاف خبر نہیں چھپنے دیتے عدالت نے انہیں گارڈ فادر ایسے ہی نہیں کہا یہ لوگ گارڈ فادر ہیں، انہوں نے عدالت کے سامنے جعلی دستاویزات پیش کیں۔
انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کا فیصلہ اخبار میں مکمل نہیں چھپا اگر پورا فیصلہ چھپ جاتا تو یہ نہ کہتے، مجھے کیوں نکالا، سیسیلین مافیا اور گارڈ فادر کا عدالتی مشاہدہ درست تھا، آج کہا جارہا ہے چیف جسٹس سمیت تمام جج کو باہر نکال دیں۔
لطیف کھوسہ کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کے ستون کی بنیاد عدلیہ ہے اور عدلیہ کی تضحیک اور تزلیل پر آرٹیکل 204 کے تحت سزا دی جاسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں مجرم کی سزا 6 ماہ ہے جبکہ عدالت کے پاس اس سے زیادہ ملزم کو جیل بھیجنے کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ادارے کا سربراہ ایماندار نہ ہو تو پورے ادارے پر اثر پڑتا ہے، ہماری ذمہ داری انصاف فراہم کرنا ہے جس سے معاشرہ قائم رہتا ہے اور الحمد اللہ ہمیں کوئی نکال باہر نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں ختم ہوجائیں تو پھر جنگل کا قانون ہوگا، مجھے جسٹس اعجاز الاحسن نے برطانیہ کی عدالت کا فیصلہ نکال کر دکھایا ہے، اگر عدالتی فیصلے پر بلا جواز تنقید ہو تو فیصلے میں لکھا ہے ججز جواب دے سکتے ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نہ ہم پریشان ہیں اور نہ قوم پریشان ہیں، ہم نے لوگوں پر عدلیہ کے وقار کو بحال کرنا ہے جبکہ یہ فیصلہ لوگوں نے کرنا ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان کے عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے، شاہراہ دستور پر قائم عمارتوں میں سپریم کورٹ کی عمارت اونچی ہے لیکن یہ عمارت کیوں اونچی ہے نہیں بتاؤں گا۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کسی آئینی ادارے کو دھمکانہ، تنقید کرنا آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے، عدالت نے واضع کیا تھا کہ نواز شریف نے مکمل سچ نہیں بتایا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عدالت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے کا جواب دینا پڑتا ہے، یہاں عدالت کو اسکینڈلائز کیا جارہا ہے، نواز شریف نے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی موجودہ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ نواز شریف میرا وزیر اعظم ہے اور فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں۔
سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 قانون آئین کے متصادم ہے اور یہ کالعدم ہوسکتا ہے، اس نئے قانون میں اثاثے ظاہر کرنے کا خانہ ختم کردیا گیا۔
جس پر چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ آپ نے بھی اس قانون پر ہاتھ کھڑا کیا ہوگا؟ کیا قانون ساز پارلیمان کے ذریعے عدالتی فیصلے کا اثر ختم کرسکتے ہیں، کیا ہم اس بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں؟ آپ کے مطابق آئین کی روح یہ ہے کہ ریاست پر ایماندار شخص حکمرانی کرے؟
اس موقع پر عدالت نے الیکشن ایکٹ 2017 کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت جمعرات 8 فروری تک ملتوی کردی۔
اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس اور راجہ ظفر الحق کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ راجہ ظفرالحق صاحب آپ عدالت میں آتے ہیں ہمیں خوشی ہوتی ہے، آج کل آپ کے ڈرانے والے لوگ نہیں آتے، اگر وہ لوگ نہیں آتے تو لے کر آئیں، ذرا ہم بھی دیکھیں ہم ڈرتے ہیں یا نہیں، لطیف کھوسہ کے خلاف فیصلہ دیا لیکن ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی، وہ فیصلے کو برا کہتے ہیں لیکن احترام کرتے ہیں اور سپریم کورٹ کا تقدس واضح نظر آنا چاہیے۔