فوجداری نظام عدل کی ازسر نو تشکیل کا فیصلہ
پاکستان کی وفاقی حکومت نے سنگین مقدمات میں کمزور استغاثہ اور ناقص تفتیش کے باعث شدت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کی عدالتوں سے فوری رہائی کے سدباب کے لیے فوجداری نظام عدم کی ازسر نو تشکیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ شدت پسندی کے خلاف بنائے گئے قومی ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزا دلوانے کے لیے کیا گیا ہے۔
اس بات کا فیصلہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس ضمن میں وفاق کی سطح پر ایک کور گروپ تشکیل دیا جائے جس میں وفاقی اور صوبائی سطح کے متعقلہ حکام کے علاوہ سول سوسائٹی اور فوجداری نظام عدم میں اصلاحات پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندے بھی شامل ہوں
یہ کورگروپ سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان کے خلاف ناقابل تردید شواہد اکھٹے کرنےکے علاوہ ان مقدمات کی تفتیش مختلف زاویوں سے کرنے سے متعلق تجاویز بھی دے گا۔
اس کور گروپ کی صوبے کی سطح پر ایک سب کمیٹی بنانے کی بھی منظوری دی گئی ہے جو سنگین مقدمات کی تفتیش اور مضبوط استغاثہ سے متعلق تجاویز اور قابل عمل حل کے لیے کام کرے گی۔
یہ سب کمیٹی اپنی تجاویز وفاقی سطح پر کور کمیٹی کو دے گی۔ اس کے علاوہ یہ کمیٹی ماضی میں فوجداری نظام عدم کی از سرنو تشکیل کے لیے دی جانے والی تجاویز کا بھی جائزہ لے گی۔
دہشت گردی سے نمٹنے والے قومی ادارے یعنی ٹیکٹا کو اس ضمن میں رابطۂ کار کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ موجودہ فوجداری نظام عدم میں جہاں شدت پسندوں کے حملے اور ان کی کارروائیاں جاری ہیں تو یہ حالات کا تقاضا ہے کہ ریاست کی جانب سے ایسے اقدامات کیے جائیں جس میں شدت پسندوں اور ملک دشمن عناصر کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔
پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے واقعات کے مقدمات کی سماعت کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں قائم کی گئی ہیں تاہم ان مقدمات کی ناقص تفتیش، عدم ثبوت اور کمزور استغاثہ کی وجہ سے ان مقدمات میں گرفتار ہونے والے ملزمان رہا ہو جاتے ہیں۔
ماضی میں قائم ہونے والی حکومتیں ان سنگین جرائم میں ملوث افراد کی رہائی کی ذمہ داری متعقلہ عدالتوں پر ڈال دیتی تھیں جب کہ متعقلہ عدالتیں ان ملزمان کی رہائی کی وجہ کمزور استغاثہ کو قرار دیتی ہیں۔
دہشت گردی اور شدت پسندی کے مقدمات کی تفتیش میں پولیس کی استعدادکار کو بڑھانے کی بات بھی کی گئی ہے۔