تعلقات میں بہتری کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے
پاکستان کی سویلین قیادت نے اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے امریکی دفد پر واضح کیا ہے کہ حالیہ امریکی ڈرون حملے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں پیدا ہونے والی سرد مہری ختم کرنے کی زیادہ تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔
اس بات کا اظہار خارجہ امور کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے پاکستان کے دورے پر آنے والے اعلیٰ سطح کے امریکی وفد کے ساتھ ملاقات میں کہی جنھوں نے جمعے کو اُن سے دفتر خارجہ میں ملاقات کی۔
پاکستان کے دورے پر آنے والے اس وفد میں سلامتی امور کے بارے میں امریکی صدر کے معاون خصوصی ڈاکٹر پیٹر لیوائے کے علاوہ افغانستان اور پاکستان سے متعلق خصوصی ایلچی رچرڈ اولسن بھی شامل ہیں۔
وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کے مطابق امریکی وفد اعلیٰ عسکری قیادت سے بھی ملاقات کرے گا۔
مشیر خارجہ نے امریکی حکام پر واضح کیا کہ مستقبل میں کسی بھی قسم کا ڈرون حملہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
سرتاج عزیز نے واضح کیا کہ نوشکی میں ہونے والے ڈرون حملے سے افغان امن عمل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان، امریکہ اور چین افغانستان کی حکومت اور طالبان کو مذاکرات کے میز پر لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے تھے۔
اس ملاقات کے بعد دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق پاکستان نے امریکی وفد کے سامنے گذشتہ ماہ بلوچستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے پر نہ صرف سخت احتجاج کیا ہے بلکہ اس کو اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے۔
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وفد نے اس الزام کو دہرایا کہ پاکستان میں طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جس پر سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے تحت پاکستان تمام شدت پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کر رہا ہے اور کسی بھی شدت پسند تنظیم کو کسی دوسرے ملک کے خلاف پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے اور اس کے علاوہ وہ افغان مہاجرین کی جلد وطن واپسی کا خواہاں ہے۔
اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ توقع کرتا ہے کہ افغان حکومت بھی تحریک طالبان کے خلاف کارروائی کرے گی جو افغان سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کارروائی کر رہی ہے اور اس طرح کے اقدامات سے دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
بلوچستان میں 21 مئی کو ہونے والے اس ڈرون حملے میں طالبان رہنما ملا منصور اختر کو نشانہ بنایا گیا تھا جو ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔
امریکی وفد کی آمد سے پہلے وزیراعظم پاکستان کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ امریکی ڈرون حملے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں اعتماد کو نقصان پہنچا ہے۔