صدر مملکت نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کوریفرنس بھیجنے سے انکار کردیا
ایوان صدر نے چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے سے انکارکرتے ہوئے اس سلسلے میں شہداءفاؤ نڈیشن کے سابق مرکزی ترجمان حافظ احتشام احمد کی طرف سے دائردرخواست نمٹا دی ہے ۔ایوان صدر کے ذرائع کے مطابق درخواست گزار سے کہا گیا ہے کہ اس کے پاس ٹھوس شواہد ہیں تو وہ آئینی طور پر براہ راست سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔براہ راست سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے اور اس پر کارروائی ہونے کی نظائر موجود ہیں۔علاوہ ازیں صدر مملکت ازخود کسی درخواست پر ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیج سکتے ۔صدر مملکت اس بابت وزیراعظم کی ایڈوائس کے پابند ہیں جبکہ وزیراعظم کی طرف سے ایسی کوئی ایڈوائس ایوان صدر کو موصول نہیں ہوئی ہے ۔ذرائع کے مطابق صدر مملکت کے قانونی مشیروں نے یہ رائے بھی دی کہ ایوان صدر کی طرف سے ایسی کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے جس سے مخصوص مفادات میں ملوث ہونے کا تاثر ملے ۔علاوہ ازیں افتخار محمد چودھری کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تناظر میں سپریم جوڈیشل کونسل میں معاملہ بھیجے جانے کے بعد کسی جج کو معطل بھی نہیں کیا جاسکتا۔صدر مملکت کو بھیجی گئی درخواست میں چیف جسٹس پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس کے اقدامات سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا ہے ۔درخواست میں آئین کے آرٹیکل 209کے تحت جوڈیشل کونسل کی کارروائی مکمل ہونے تک چیف جسٹس کو معطل کرنے کی استدعابھی کی گئی تھی۔درخواست میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات میں ملوث کیا،جسٹس میاں ثاقب نثار نے انتظامی معاملات میں مداخلت کرکے حکومتی مشینری کو مفلوج کرنے کی کوشش کی،احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع کرواکے انتظامی معاملات میں مداخلت کی ۔پولیس مقابلوں کے خلاف درخواست گزار کی جانب سے دائر کی گئی آئینی پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دیکر مسترد کیاجبکہ سپریم کورٹ کے سینئروکیل کی جانب سے دائر کی جانے والی آئینی پٹیشن کو سماعت کے لئے منظور کرلیا گیا،جسٹس میاں ثاقب نثار پسند و ناپسند کی بنیاد پر ازخود نوٹس لیتے ہیں،اس طرح کے تمام اقدامات مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔درخواست میں شریف فیملی اورمسلم لیگ (ن) کے خلاف مقدمات پاناما کیس کا فیصلہ سنانے والے 5ججوں کے روبرو ہی لگائے جانے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔درخواست میں پرویز مشرف اور علامہ خادم حسین رضوی کے خلاف ازخود نوٹس لے کر کارروائی نہ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے ۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس سرکاری افسروںکو عدالت میں طلب کرکے بادی النظر میں ان کی تحقیر اور توہین بھی کرتے ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے رفعت مختار نامی پولیس افسر سے نامناسب انداز میں بات کرکے اور غصے میں ان کی معطلی کا حکم جاری کرکے ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل 2کی خلاف ورزی کی ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف تمام الزامات کی تحقیقات کے لئے آئین کے آرٹیکل 209کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا جائے۔