فیض آباد دھرنا کیس؛ آئی ایس آئی کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار فیض آباد دھرنا کیس؛ آئی ایس آئی کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کیس میں آئی ایس آئی کی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے دو ہفتوں میں نئی رپورٹ مانگ لی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ وزارت دفاع کی باتیں سن کر اب وہ ملک کے مستقبل کے لیے فکر مند ہیں، کیا کسی کو ریاست پاکستان کا کوئی خیال ہے، وزارت دفاع بھی ہماری طرح عوام کو جوابدہ ہے۔
سپریم کورٹ میں فیض آباد ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران آئی ایس آئی کی 46 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ خادم رضوی تسلیم شدہ بدعنوان ہے، فیض آباد دھرنے کی مختلف سیاسی جماعتوں نے حمایت کی، حمایت کرنے والوں میں شیخ رشید، اعجاز الحق اور تحریک انصاف کا علماء ونگ بھی شامل ہے، آئی ایس آئی نے فیض آباد دھرنے پر طاقت کا استعمال نہ کرنے کی سفارش کی۔
عدالت نے آئی ایس آئی کی رپورٹ غیرتسلی بخش اور نامکمل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئی ایس آئی کو تو معلوم ہی نہیں کون کون ہے، اربوں کی جائیداد کو آگ لگادی گئی، ملک کی سب سے بڑی ایجنسی کی معلومات جان کر مجھے تشویش ہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل نے آئی ایس آئی کے ساتھ میٹنگ کی، کیا اٹارنی جنرل آفس آئی ایس آئی سے مطمئن ہے، بتائیں خادم رضوی کی گزر بسر کیسے ہو رہی ہے، خادم رضوی ٹیکس دیتاہے یا نہیں اور اس کا روزگار کیا ہے۔
رپورٹ میں اس بارے تفصیلات کہاں ہیں، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت کو بتایا کہ خادم رضوی پیشے کے اعتبار سے خطیب ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ کیا خطیب کی کوئی تنخواہ ہوتی ہے۔ وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ خادم حسین رضوی چندہ وصول کرتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ وزارت دفاع کی باتیں سن کر اب میں ملک کے مستقبل کے لیے فکر مند ہوں، کیا کسی کو ریاست پاکستان کا کوئی خیال ہے، وزارت دفاع بھی ہماری طرح عوام کوجوابدہ ہے، فاضل عدالت نے آئی بی کی جانب سے رپورٹ براہ راست عدالت میں جمع کروانے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئی بی کی رپورٹ میں کچھ خفیہ نہیں بس اخباری خبریں ہیں۔
عدالت نے پیمرا کی جانب سے رپورٹ نہ آنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے دس روز میں رپورٹ جمع کروانے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آفس سے سوشل میڈیا پر انتہاپسندی روکنے کے حوالے سے اقدامات پر بھی رپورٹ طلب کرلی۔