مردم شماری نتائج اپریل میں حکومت کو پیش کر دینگے، سیکریٹری شماریات
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے شماریات نے سندھ کی جانب سے صنعتوں سے متعلق ڈیٹا نہ دینے پر سیکریٹری صنعت و پیداوار اور ڈی جی شماریات سندھ کو اگلے اجلاس میں طلب کر لیا ہے۔کمیٹی نے زراعت شماری ہر 3 سال بعدکرانے کی سفارش کی ہے، سیکریٹری شماریات نے کمیٹی کو بتایا کہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج پرکراچی کے علاوہ کسی اور جگہ سے اعتراض نہیں اٹھایا گیا، نتائج کے 5 فیصد آڈٹ کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں پیش کیا جا رہا ہے۔ منگل کو کمیٹی کا اجلاس ڈاکٹر رمیش کمار کی زیرصدارت ہوا، اجلاس میں سیکریٹری شماریات رخسانہ یاسمین نے بتایا کہ مردم شماری کے نتائج مکمل کر لیے ہیں، اپریل کے آخر میں حکومت کو پیش کردیے جائیں گے، ہمارے اعداد و شمار نادرا سے مطابقت رکھتے ہیں، کراچی کے علاوہ ملک کے کسی حصے سے مردم شماری کے نتائج پرکوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا، وزارت شماریات کے حکام نے کہا کہ ڈیموگریفک اسٹیٹکس کو 2007 سے روکا ہوا ہے تاہم اب اس کو دوبارہ شروع کرنے جا رہے ہیں، سیکریٹری شماریات نے بتایا کہ کنزیومر پرائس انڈکس کے لحاظ سے ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں، سندھ کی جانب سے صنعتوںکے اعداد و شمار نہیں دیے گئے ہیں۔جس پر رکن کمیٹی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے ان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی شہر نے ڈیٹا نہیں دیا تو یہ معاملہ صوبائی حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا، شماریات نے خود جا کر ڈیٹا کیوں نہیں حاصل کیا، کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں سندھ کے ڈی جی شماریات اور سیکریٹری صنعت کو طلب کیا جائے اور ان سے صورت حال کے بارے میں بریفنگ لی جائے، کمیٹی نے ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی ایس اے اقبال قادری کا جنرل اسٹیٹکس ری آرگنائزیشن ترمیمی بل 2017 موخرکر دیا جبکہ وزرات شماریات نے اپنا جنرل اسٹیٹکس ری آرگنائزیشن ترمیمی بل 2017 (گورنمنٹ بل) واپس لے لیا، کمیٹی نے پاکستان بیورو برائے شماریات کو ہدایت کی کہ ملک میں آبادیات، موسمیات، نوجوانان اور شرح اموات کے حوالے سے اعداد و شمار مرتب کیے جائیں تاکہ ان شعبوں سے متعلق مسائل پر قابو پانے کیلیے مناسب پالیسی سازی کی جا سکے۔علاوہ ازیں قومی اسمبلی کی ہاؤس اینڈ لائبریری کمیٹی کا اجلاس قائم مقام اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کی صدرارت میں ہوا، کمیٹی نے پارلیمنٹ لاجز میں فیملی سویٹس اور سرونٹ کوارٹرز کی تعمیر میں غیر ضروری تاخیر برتنے پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے سخت ایکشن لینے کی ہدایت کی ہے، قائم مقام اسپیکر نے اسمبلی سیکریٹریٹ اور سی ڈی اے کو معزز عدالت میں فرم کے خلاف کیس کی فعال انداز میں پیروی کرنے کی ہدایت کی ہے، قائم مقام اسپیکر نے کہا کہ یہ منصوبہ مئی 2011 میں شروع ہوا تھا اور شیڈول کے مطابق اس منصوبے کو 2013 میں مکمل ہونا تھا تاہم تعمیراتی فرم کی کی ناقص کارکردگی اور نااہلیت کی وجہ سے یہ منصوبہ اب تک مکمل نہیں ہو سکا۔علاوہ ازیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی محمد مزمل قریشی کی زیر صدارت ہوا، اجلا س شروع ہو تے ہی کمیٹی اراکین نے چیئرمین این ایچ اے جواد رفیق ملک کی کمیٹی میں عدم شرکت کے بارے میں پوچھا جس پرسیکریٹری مواصلات فرقان بہادرنے کمیٹی روم سے باہر نکل کر چیئرمین این ایچ اے کو فون کیا اور کمیٹی کو بتایا کہ وہ 15 منٹ میں آ رہے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی مزمل حسین قریشی نے شدید برہمی کا اظہارکر تے ہوئے کہا کہ میرے خیال سے چیئرمین این ایچ اے مشہور ہونا چاہتے ہیںکہ ان کیلیے کوئی تلخ الفاظ اداکیے جائیں اور سیکریٹری کمیٹی سے چیئرمین کے نہ آنے پر سزا کے بارے میں پوچھا جس پرسیکریٹری کمیٹی نے بتایاکہ اگرکوئی کمیٹی میں نہیں آتا تو کمیٹی کے پاس اختیارات ہیں کہ اسے ہتھکڑی لگا کر بھی لایا جا سکتا ہے جس پر مزمل حسین قریشی نے کہا کہ کمیٹی کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔ہم حلقوں کو چھوڑ کر یہاں آتے ہیں لیکن اراکین کی بات کی عزت نہیں، چیئرمین کا انٹرسٹ نہیں ہے اس لیے ہم احتجاجا واک آئوٹ کرتے ہیں جس پر پوری کمیٹی نے واک آئوٹ کردیا،اجلاس میں کراچی میں معمار منصوبہ کے الاٹیوں کو درپیش مسائل کا بھی جائزہ لیا گیا۔