کشیدگی برقرار، طورخم پر مزید نفری تعینات
پاکستان اور افغانستان کے سرحدی مقام طورخم پر افغان اور پاکستانی فوجوں میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد دونوں ممالک نے طورخم کراسنگ پر فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ سرحد پرگیٹ کی تعمیر پر شروع ہونے والی کشیدگی تیسرے دن بھی برقرار ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق پاکستان کے سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج نے طورخم سرحد پر پیر کی رات کو بھاری ہتھیار پہنچا دیے ہیں اور مزید نفری کو تعینات کیا گیا ہے۔
افغان بارڈر پولیس کے کمانڈر نے بھی تصدیق کی ہے کہ پاکستانی فوج کے ساتھ جھڑپوں کے بعد افغان بارڈر پولیس کی مزید نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اپنی سرحد کو محفوظ بنانا چاہتا ہے اور روزآنہ ہزاروں کی تعداد میں افغانی بغیر کسی ’ٹکٹ‘ کے پاکستان آتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 16 ممالک بھی افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکے ہیں اور ’اگر ہمارا خون بہے گا تو اُس کا حساب دینا ہو گا۔‘
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان پاکستان میں دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا الزام عائد کرتا ہے لیکن تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
منگل کو افغانستان کے دفترِ خارجہ نے کابل میں پاکستان کے سفیر کو طلب کیا اور طورخم سرحد پر ہونے والی جھڑپوں پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔
ادھر طورخم پر افغان فوج کے ساتھ اتوار کی شب فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہونے والے پاکستانی فوج کےمیجر علی جواد ھسپتال میں دم توڑ گے جن کے جنازے میں منگل کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے شرکت کی۔
ان جھڑپوں میں ایک افغان فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے جن کا جنازہ منگل کو جلال آباد میں ہوا۔ ان کے جنازے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور پاکستانی پرچم کو آگ لگائی اور پاکستان کے خلاف نعرے لگائے۔
یہ تنازع پاکستان کی جانب سے سرحد پر اپنی حدود کے اندر ایک دروازے کی تعمیر پر شروع ہوا اور اتوار سے پیر کی رات تک وقفے وقفے سے ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں اب تک پاکستانی اور افغان فوج کا ایک ایک فوجی ہلاک جبکہ 11 پاکستانیوں سمیت 16 افراد زخمی ہوئے ہیں
پشاور میں حکام کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہونے والے دیگر پانچ سکیورٹی اہلکاروں میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔
دوسری جانب مقامی پولیٹکل انتظامیہ کے ایک اہلکار نےبتایا ہے کہ طورخم پر غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے جبکہ منگل کو بھی سرحد کی دونوں جانب سکیورٹی فورسز نے اپنی پوزیشنز سنبھال رکھی ہیں۔
اہلکار کے مطابق طورخم سرحد کے قریب واقع لنڈی کوتل شہر میں دو دن کے بعد کرفیو ختم کر دیا گیا ہے اور تاجروں کو کاروباری سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔سرحد بند ہونے کی وجہ سے دونوں جانب ٹرکوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں جبکہ پاکستان سے جانے والے وہ ٹرک واپس پشاور آ گئے ہیں جن پر خوراک لدی ہوئی تھی
اس کے علاوہ سرحد عبور کرنے کے لیے آنے والے افراد کی بڑی تعداد بھی دونوں جانب پھنس کر رہ گئی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے حکام نے سرحد پر فائرنگ کے واقعات پر ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو طلب کر کے احتجاج بھی کیا ہے۔
پیر کو پاکستانی دفترِ خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اتوار کو ہونے والی فائرنگ کا مقصد ایک ایسے دروازے کی تعمیر روکنا ہے جو پاکستانی حدود کے اندر تعمیر کیا جا رہا ہے اور جس کا مقصد عوام اور گاڑیوں کی سرحد کے آر پار نقل و حمل کو آسان بنانا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے سرحدی مقام طورخم پر گذشتہ کچھ عرصہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
رواں ماہ ہی باڑ کی تنصیب پر دونوں ممالک کے درمیان حالات کشیدہ ہوگئے تھے جس کی وجہ سے سرحد چار دن تک بند رہی تھی۔