عقلمندی سے بھولنے کا سليقہ سیکھنا ضروری‘
ہم سب لوگوں کو نئی چیزیں زیادہ لبھاتی ہیں۔ پرانے اور نئے کپڑوں میں سے انتخاب ہو یا پرانے اور نئے موبائل میں، ہم سب کا جھکاؤ کم و بیش ایک جیسا ہوتا ہے جس میں نیا ہے تو بہتر ہے۔
ہمارے یہ انتخابات ایک طرح کی طرف داری ہیں۔ پرانے کے مقابلے نئے کو ترجیح دینا ہے جو عمر کے ساتھ ناانصافی جیسا ہے۔
ہم اعداد و شمار کے ساتھ ایسا کئی بار کرتے ہیں جبکہ ہمارا یہ جھکاؤ، نقصان دہ ہو سکتا ہے اور ہمیں غلط فیصلے کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ آج دنیا میں جتنے بھی اعداد و شمار موجود ہیں ان میں سے 90 فیصدگذشتہ چند سالوں میں جمع کیے گئے ہیں۔
وہ چاہے معیشت کے ہوں، آبادی کے ہوں یا پھر کوئی اور اعداد و شمار۔ ہر دو سال میں گذشتہ 30 سالوں کے برابر اعداد و شمار جمع کر لیے جاتے ہیں۔
اس کی وجہ سے سب سے بڑی جو دقت ہوتی ہے وہ یہ کہ ہمارا نئے کی طرف جھکاؤ بڑھتا جاتا ہے۔ جیسے کہ آپ کے پاس بچپن کی تصاویر زیادہ ہیں اور پھر موجودہ زمانے کی تو جواب یقیناً ہوگا حالیہ دنوں کی۔
جس تیزی سے آج اعداد و شمار جمع ہو رہے ہیں، ان کو آپ کی تصاویر کے نظریے سے دیکھیں تو آپ زندگی کے چھ سے آٹھ سال کے درمیان کی دو ہزار تصاویر ہوں گی وہیں 16 سے 18 برس کی عمر کی دو کروڑ۔ یعنی آخری دو سالوں میں ہر سیکنڈ میں آپ کی تین تصاویر کی اوسط نکلے گی۔
آج معلومات کے بہتر ذرائع موجود ہیں اس لیے دن رات نئے اعداد و شمار جمع ہو رہے ہیں لیکن جب آپ ان اعداد و شمار کا موازنہ کرنے بیٹھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے پاس پرانے اعداد و شمار تو بہت کم ہیں۔
ایسے میں صحیح فیصلہ لینے میں مشکل ہوتی ہے۔ جب آپ پرانے اعداد و شمار پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تازہ اعداد و شمار تو آپ کے سر پر سوار ہیں کیونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
پھر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو اب ہو رہا ہے، ایسا ہی آگے چل کر بھی ہوگا جبکہ اکثر یہ بات غلط ثابت ہوئی ہے۔
جیسا کہ ابھی گرمی زیادہ ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے اعداد و شمار دیکھ کر آپ یہ کہیں گے کہ گرمی بڑھ رہی ہے۔ ایسا ہی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر چاہے وہ سٹاک مارکیٹ ہو، معیشت کی ترقی کی رفتار ہو، کمپنیوں کی کامیابی یا ناکامی ہو، جنگ اور امن کا مسئلہ ہو، رشتوں کی باتیں ہوں یا پھر کسی سلطنت کا بلندی پر پہنچنا یا تباہ ہونا۔
ہم کسی بھی کے بارے میں تازہ مثالوں سے ہی فیصلے سنا دیتے ہیں جیسے کہ ماہرینِ اقتصادیات، 2008 کی کساد بازاری سے پہلے کہہ رہے تھے کہ ایسی مندی اب دنیا میں کبھی نہیں آئے گی لیکن مندی آئی اور سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں ہم اکثر نئی معلومات رکھ لیتے ہیں اور پرانی چیزیں ہٹاتے رہتے ہیں. یہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے لے کر سپریم کورٹ کے فیصلوں تک میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہم پرانے موبائل کے بجائے نئے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس سے نمٹا کس طرح جائے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں نئے پرانے کی اہمیت سمجھنے کا سليقہ ہونا چاہیے۔ اعداد و شمار کے ڈھیر میں صحیح معلومات بچا کر محفوظ کرنا بہت اہم ہے۔ اسی کی بنیاد پر مزید فیصلے لیے جائیں گے۔ حالیہ دو تین سالوں کے تو تمام اعداد و شمار ہوں گے مگر گذشتہ 30 سالوں کے بارے میں سمجھنے کے لیے ہمارے پاس کم ہی اعداد و شمار ہوں گے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ہمیں عقلمندی سے بھولنے کا سليقہ سیکھنا ہوگا تاکہ بلاوجہ کے اعداد و شمار کا بوجھ ہمارے دماغ سے اتر جائے۔ ہم حال کو بنیاد بنا کر مستقبل کے فیصلے نہ لیں۔
ویسے کچھ اعداد و شمار ایسے ہوتے ہیں، جن سے چھیڑ چھاڑ کرنا ممکن نہیں۔ مثلا، کچھ حیاتیات کے جین کے بارے میں معلومات، آبادی کے اعداد و شمار، جغرافیہ اور طبعی سائنس کے اعداد و شمار۔
ان سب کو بھولنے کا مطلب، غلط فیصلے کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ سو ان سب مسئلوں پر ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا ہوگا۔
آج اعداد و شمار بھلے ہی بڑی تعداد میں ہیں مگر اس کمپنیوں یا حکومتوں کے فیصلے کرنے کے عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ زیادہ اعداد و شمار کے سیلاب سے اور كنفيوز ہیں۔ ان اعداد و شمار سے اٹھنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنے بھی ان کے لیے مشکل ہو جاتے ہیں۔
تو صرف اعداد و شمار جمع کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ ہمیں صحیح انتخاب کرنا ہوگا اور صحیح فیصلہ کرنا ہوگا۔ تبھی اعداد و شمار کی بازی گری سے بچ سکیں گے۔