دنیا

اورلینڈو، عمران یوسف نےدرجنوں جانیں بچائیں

اورلینڈو میں گذشتہ اتوار کو پلس نائٹ کلب کے قتل عام کے دوران لوگوں کی جرات اور بہادری کی کہانیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔

24 سالہ نوجوان عمران یوسف اس کلب میں باؤنسر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ اس سے قبل افغانستان میں امریکی فوج کے ساتھ جنگ میں حصہ لے چکے ہیں۔

لیکن گیارہ جون کی اس بھیانک رات کو انھوں نے بہت سے لوگوں کی جان بچائی۔

انھوں نے کہا کہ ’ابتدا میں تین چار گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ فائرنگ کی اچانک آوازوں سے جھٹکا لگا۔‘

ہر شخص خوفزدہ ہو گیا۔ میں یہاں کلب کے عقب میں تھا اور لوگوں نے یہاں آنا شروع کردیا اور یہ جگہ کچھا کھچ بھر گئی۔‘

وہ ان چند لوگوں میں شامل تھے جنھیں یہ علم تھا کہ لوگوں کے لیے پیچھے ایک محفوظ راستہ ہے۔ لیکن اس کی کنڈی کھولنی تھی۔

انھوں نے کہا وہ چینخ چینخ کر کہہ رہے تھے کہ دروازہ کھولو اور کوئی دروازہ نہیں کھول رہا تھا سب ڈرے ہوئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ان کے پاس ایک ہی راستہ تھا۔ ’یا تو ہم وہیں رہیں اور مارے جائیں یا پھر میں لوگوں کے اوپر سے کود کر دروازہ کھول کر باہر نکلنے کا خطرہ مول لوں‘۔

انھوں نے کہا کہ دروازے کھولنے کے بعد 60 سے 70 لوگ اس راستے سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

ایک کلب میں باقاعدگی سے آنے والے جوشوا میگل نے کہا کہ کار پارک میں وہ ایک گاڑی کے پیچھے چھپے ہوئے تھے کہ انھوں نے بار میں کام کرنے والے روڈنی سمٹر کو دیکھا وہ لڑکھڑا رہے تھے اور ان کا خون بہہ رہا تھا۔

میگل نے انھیں گاڑی کے پیچھے گھسیٹ لیا اور اپنی قمیض سے ان کے زخمی بازو سے بہنے والے خون کو روکنے کی کوشش کی۔

لیکن وہ سمٹر کی پشت پر گولی کے زخم سے خون روکنے کے لیے کیا کر سکتے تھے۔

میگل نے کہا کہ انھوں نے سمٹر کے زخم پر دباؤ ڈالے رکھا اور انھیں قریب ہی کھڑے پولیس آفسر کے پاس لے کر گئے۔

اس وقت وہاں کوئی ایمبولینس موجود نہیں تھی۔ پولیس آفسر نے مجھے کہا کہ آپ میری گاڑی میں لیٹ جائیں اور سمٹر کو اپنے اوپر لٹا کر ان کی پشت کو زور سے تھام لیں تاکہ خون بہنا رک سکے۔

میگل نے زخمی سے کہا کہ میرے ساتھ رہو، تم ٹھیک ہو جاؤ گے میں تمہیں یقین دلاتا ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔

سمٹر جن کے دو بچے ہیں وہ اورلینڈو کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

اورلینڈو کی ایک اور کہانی

’میں مارا جاؤں گا‘ کلب میں موجود ایک لڑکے نے اپنی ماں کو پیغام بھیجا۔ ’لوگ مارے جا رہے ہیں، مجھے فون کریں۔‘

کرسٹوفور ہینسن نے کہا کہ وہ گٹھنوں کے بل کلب سے باہر نکلے اور انھوں نے وہاں کئی زخمیوں کی مدد کی۔

کرسٹوفر ہینسن نے کہا کہ وہ ایک زخمی کی مدد کر رہے تھے لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ زندہ ہے کہ مر گئے ہیں۔

کرسٹوفر پہلی مرتبہ اس کلب میں گئے تھے اور موج مستی میں مصروف تھے جب گولیاں چلنی شروع ہوئیں۔

گولیوں سے بچنے کے لیے وہ زمین پر لیٹ کر کلب سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہر طرف خون ہی خون نظر آ رہا تھا۔‘

کرسٹوفر نے پہلے ایک زخمی شخص کی مدد کی جو زمین پر پڑا ہوا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے اپنا بندنا اتار کر اس میں گرہا باندھ کر اس زخمی شخص کی پشت پر زخم میں بھر دیا۔‘

پھر انھوں نے اس زخمی شخص کو سٹریچر پر ڈالنے میں مدد دی اور اس کے بعد انھیں ہپستال لے جایاگیا۔

کرسٹوفر نے اس کے بعد ایک اور زخمی خاتوں کی مدد کی اور انھیں یقین دلایا کہ جب تک انھیں ہسپتال نہیں لے جایا جاتا وہ ان کے ساتھ ہی رہیں گے۔

کرسٹوفر کے والد نے کہا کہ انھیں اپنے بیٹے پر فخر ہے ایک آدمی ہونے کے ناطے بھی اور ایک ’گے‘ آدمی ہونے کے ناطے بھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close