چیف جسٹس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں مس کنڈکٹ کے الزام میں ریفرنس دائرکردیا گیا ہے ۔ یہ ریفرنس کوہاٹ خیبر پختونخوا کے حاضر سروس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج احمد سلطان ترین کی طرف سے دائر کیا گیا ہے۔ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے حالیہ عدالتی اقدامات اور طرز عمل ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ کے منصب اور آئین کے آرٹیکل 209 میں دیے گئے کوڈ آف کنڈکٹ کے تقاضوں کے برعکس ہے۔ چیف جسٹس اپنے طرز عمل اور عدالتی اقدامات کے ذریعے مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اس لئے آئین کے آرٹیکل 209 ذیلی آرٹیکل پانچ کے تحت ان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی ہونی چاہیے۔ریفرنس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں عدالتی فعالیت کا تمام پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس دورکی عدالتی فعالیت سے قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوئی بلکہ دیگر آئینی اداروں میں بے جا مداخلت اور چیف جسٹس کی ذاتی سیاست کی وجہ سے بطور ادارہ عدلیہ کا نقصان ہوا،اس ضمن میں مصنفہ آمنہ سیدکی کتاب چوہدری کی سیاست اور انصاف کا حوالہ بھی دیا گیا ہے
مزیدکہا گیا ہے کہ عدالتی فعالیت کے فائدے اور نقصان کا دارومدار اس کے پیچھے کارفرما ایجنڈے پر ہوتا ہے،افتخار چوہدری کی عدالتی فعالیت کو اس لئے عوام کی حمایت حاصل ہوئی کیونکہ اس کے نتیجے میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن یہ وعدہ پورا نہیں ہوا، موجودہ صورتحال میں دیگر آئینی اداروں کے معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے اور اختیار سے تجاوزکیا جارہا ہے جس سے ایک سیاسی تنازع پیدا ہوگیا ہے۔ریفرنس میں وزیراعظم سے چیف جسٹس کے ملاقات اورکچھ سیاستدانوں کیخلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری کرنے اور ان کے قائدین کی توہین آمیز بیانات کو نظر اندازکرنے پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے جبکہ چیف جسٹس کی تقاریر اور صحافیوں کو انٹرویو پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کیا اس سے عدلیہ کی نیک نامی ہورہی ہے اورکیا چیف جسٹس کے عہدے کے شایان شان ہے؟کیا بطور چیئرمین قومی عدالتی پالیسی سازکمیٹی چیف جسٹس نے سستے اور فوری انصاف کی فراہمی اورفوجداری نظام انصاف کو بہترکرنے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کیں؟کیا چیف جسٹس کے پاس کوئی اخلاقی جواز ہے کہ وہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو کارکردگی دکھانے پر مجبورکریں گے۔ریفرنس میں چیف جسٹس کی طرف سے مقدمات کی سماعت کے دوران ریمارکس دینے اور پھر ان ریمارکس کی وضاحتیں دینے پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے اورکہا گہا ہے کہ اس طرح عمل کی وجہ سے عدلیہ میں (دراڑ) پیدا ہوگئی ہے۔ملک کے اندر سیاست میں تناؤ کی وجہ عدالتی فعالیت ہے جبکہ اس تناؤ میں پہلے سے کوئی متعین ایجنڈے کے بغیر وزیراعظم سے ملاقات ،راؤ انوار کے خط کو اوپن کرنے اور انہیں ریلیف دینے پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ ایک مبینہ قاتل کے ساتھ یہ سلوک کیا جج کے شایان شان ہے؟ریفرنس میں ملک بھر سے اسپیشل عدالتوں اور ٹربیونل کے ججوں کو اپنے سامنے بٹھانے پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی گئی ہے کہ اس کی انکوائری کی جائے۔