طورخم پر گیٹ بنے گا، حملہ ہوا تو جواب دیا جائےگا
پاکستان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان حالیہ تنازعے کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے خِارجہ امور نے کہا ہے کہ اگر کوئی بھی ملک آپ پر حملہ کرے گا تو پاکستان اس کا جواب دے گا۔‘سرتاج عزیز نے ان خیالات کا اظہارایک گفتگو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ طورخم پرگیٹ کی تعمیر جاری رہے گی کیونکہ اس گیٹ کی تعمیر سے نہ تو پاکستان افغانستان کے ساتھ کسی دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی قانون کے منافی کام کر رہا ہے۔دوسری جانب کابل سےبتایا ہے کہ طورخم کا راستے کھلنے پر افغانستان میں لوگ بہت خوش ہیں اور امید کرتے ہیں کہ کہ دونوں ممالک اس حوالے سے مزید کشیدگی کو ہوا نہیں دیں گے۔
سنیچر کو افغانستان کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ پیر کو ایک افغان وفد پاکستان جائے گا اور کوشش کرے گا کہ دونوں ممالک کے درمیان طورخم پر آئندہ کسی قسم کی کشیدگی نہ ہو۔
واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے حکام کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد پانچ دن سے بند طورخم سرحد سنیچر کی صبح کھول دی گئی تھی۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ جب تک افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر ’بارڈر مینیجمنٹ‘ کا کوئی نظام قائم نہیں ہو جاتا،اس وقت تک دہتشگردی، انتہا پسندی اور سمگلنگ جیسے مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے۔ ’سرحد پر دونوں جانب سے آمد و رفت دستاویزات کی مدد سے ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ روزانہ چالیس سے پچاس ہزار افراد اس راستے کسی رکاوٹ یا پوچھ گچھ کے بغیر آ جا رہے ہیں اور اس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ’ہم نے افغانستان کو مئی میں بتا دیا تھا کہ یکم جون سے کسی کو دستاویزات کے بغیر سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
خارجہ امور کے مشیر کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان چاہتا ہے کہ پاکستان سرحد پر گیٹ کی تعمیر روک دے لیکن ’ہم گیٹ اپنے علاقے میں بنا رہے ہیں اور اس کے لیے ہمیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔‘
سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ گیٹ پاکستان اپنے علاقے میں سرحد سے تیس پینتیس میٹر اندر بنایا جا رہا ہے اور پاکستان اس کی تعمیر جاری رکھے گا اور اسے دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت کے لیے کھول دیا جائے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر پاکستان نے افغانستان کو بتا دیا تھا کہ وہ سرحد پر گیٹ تعمیر کرنے جا رہا ہے تو پھر سرحد پر اتنی کشیدگی اور فائرنگ کا تبادلہ کیوں ہوا، تو سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کو سنہ 2014 میں بتا دیا تھا کہ وہ طورخم پر نئی سہولیات متعارف کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے، لیکن افغانستان نے ’ہماری اس تجویز کا کوئی باقاعدہ جواب نہیں دیا۔ ان کی جانب سے جو تحفظات سامنے آئے تھے، انھیں منصوبے میں شامل کر لیا گیا تھا۔‘
سرتاج عزیز کے بقول سرحد پر دستاویزات کی پابندی جیسے اقدامات دونوں ممالک کے حق میں ہیں کیونکہ ’وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان سے لوگ بلا روک ٹوک افغانستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔‘
ایسا نظام ضروری ہے کیونکہ ’جب تک سرحد پر انتظامات نہیں کیے جائیں گے، سہولیات نہیں فراہم کی جائیں گی، ہمارے سکیورٹی خدشات قائم رہیں گے اور افغانستان کے خدشات بھی موجود رہیں گے۔‘
جب سرتاج عزیز کی توجہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے اس بیان کی جانب دلوائی گئی کہ پاکستان بھارت کو افغانستان تک زمینی راستے سے رسائی نہیں دینا چاہتا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’مسائل تو اسی وقت حل ہو سکتے ہیں جب انڈیا مذاکرات کے لیے رضامند ہو اور مذاکرات جب ہی ہو سکتے ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے ہوں۔اس سے قبل سنیچر کی صبح طورخم میں مامور پولیٹکل انتظامیہ خیبرایجنسی کے تحصیل دار غنچہ گل نےتصدیق کی تھی کہ جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب پاکستان اور افغانستان کے سرحدی اہلکاروں کے مابین ہونے والے مذاکرات کامیاب رہے جس کے بعد سرحد کھولنے کا فیصلہ کر دیا گیا تھا۔
پاک افغان سرحدی مقام طورخم پر گذشتہ کچھ عرصہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور طور خم سرحد پر افغان سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے پاکستان فوج کے میجر ہلاک ہو گئے تھے۔
واضح رہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے طورخم کے مقام پر سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کے عمل پر سختی سے عمل درآمد شروع کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے سرحد پار آنے جانے والوں کی ایک بڑی تعداد متاثر ہوئی تھی۔
فائرنگ کے بعد سرحد پر حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے جس سے دونوں جانب آمد و رفت معطل ہوگئی تھی۔