دنیا

نفرت انگیز پوسٹر کی وجہ سے فیصلہ بدلا

کنزرویٹیو پارٹی کی سابق چیئر پرسن بیرونس سعیدہ وارثی یورپی یونین سے متعلق برطانیہ میں ہونے والے ریفرنڈم میں ’لیو‘ یعنی چھوڑ دیں کے کیمپ سے نکل کر ’ریمین‘ یعنی یونین میں رہنے کے کیمپ میں آ گئی ہیں۔

سیدہ وارثی نےبتایا کہ ’لیو کیمپین‘ یا یورپی اتحاد کو چھوڑنے کے حق میں چلائی جانے والی مہم میں ’نفرت اور غیر ملکیوں سے بیزاری‘ کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ انھوں نے یہ فیصلہ برطانوی دائیں بازو کی جماعت یوکپ کا پوسٹر ’بریکنگ پوائنٹ‘ دیکھ کر کیا۔

تاہم ’لیو‘ کیمپ نے کہا ہے کہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ لیڈی وارثی نے کبھی ان کی مہم میں شمولیت بھی اختیار کی تھی، جبکہ یوکپ کے سربراہ نائجل فراج نے پوسٹر کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ سچ ہے۔‘

دونوں کیمپوں کے کئی رہنماؤں نے یوکپ کے رہنما نائجل فراج پر الزام لگایا ہے کہ وہ 23 جون کو ہونے والے ریفرنڈم سے پہلے ووٹروں کو ڈرا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ فراج لیو کیمپین میں سرکاری طور پر شامل نہیں ہیں اور ان کے پوسٹر میں تارکینِ وطن کی لمبی قطار دکھائی گئی ہے۔

لیو کیمپین کے سرکردہ لیڈر مائیکل گرو نے کہا کہ جب انھوں نے پوسٹر دیکھا تو انھیں جھرجھری آگئی۔ پوسٹر پر چھپنے والی تصویر سلووینیا میں لی گئی تھی۔ جارج اوسبورن کہتے ہیں کہ تصویر 1930 کے ادب سے لی گئی لگتی ہے۔

لیڈی وارثی جنھوں نے 2014 میں غزہ پر اپنے موقف کی وجہ سے حکومت میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کہتی ہیں کہ ’بریکنگ پوائنٹ پوسٹر دراصل میرے لیے یہ کہنے کے لیے آخری مقام تھا کہ میں اس کی مزید حمایت نہیں کر سکتی۔

اس تنقدی پر بات کی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ کبھی لیو کیمپین کا حصہ ہی نہیں تھیں۔

’میں لیو ووٹ کے لیے اس وقت سے مہم چلا رہی ہوں جب ابھی ’ووٹ لیو‘ قائم بھی نہیں ہوا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے لیو مہم کے سینیئر رہنماؤں سے بات چیت کی تھی جس میں انھوں نے برطانیہ کے متعلق اپنی ’پرامید‘ سوچ کے متعلق بتایا تھا، جو کہ آزادی پر قائم تھی، بہترین اور قابل لوگوں کے کھلی تھی اور جس کی جڑیں انسانی جبلت میں پیوست تھیں۔‘

’بدقسمتی سے آج ہم جو برطانیہ کی صورت دیکھ رہے ہیں وہ جھوٹ اور نفرت بھری مہم پر مبنی ہے۔ کیوں مجھ جیسے لوگ جو متحدہ یورپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اب محسوس کر رہے ہیں کہ ’لیو‘ کو چھوڑ دینا چاہیے؟‘

’کیونکہ دن بہ دن ہم کیا سن رہے ہیں؟ پناہ گزین آ رہے ہیں، زنا کار آ رہے ہیں، ترک آ رہے ہیں۔‘

انھوں نے اپنی پوزیشن بدلنے کے متعلق دی ٹائمز کو بتایا کہ ’یہ آسان فیصلہ نہیں ہے۔ یہ ایک مشکل ذاتی سفر ہے۔‘

’جب میں ان لوگوں کو دیکھتی ہوں جو وہ کہہ رہے ہیں اور جو لوگ اس طرح کے نقطۂ نظر کی حمایت کر رہے ہیں، بی این پی، ڈونلڈ ٹرمپ، میرین لی پن، آسٹریا کی فریڈم پارٹی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر روز انتہائی دایاں بازو لیو کے ساتھ کھڑا ہو رہا ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close