محبوبہ مفتی کی مقبولیت کا امتحان
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کئی مرتبہ کشمیر سے انتخابات لڑے ہیں۔ لیکن بدھ کو جنوبی کشمیر کے اننت ناگ انتخابی حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخابات ان کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہوں گےاکثر حلقے کہتے ہیں کہ ان کی جیت تو یقینی ہے، لیکن انتخابات میں ووٹوں کی تعداد ان کی مقبولیت کا فیصلہ کرے گی
یہ نشست اس سال جنوری میں وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کے انتقال سے خالی ہوگئی تھی۔ محبوبہ مفتی پہلے ہی انڈیا کی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوگئی تھیں، لیکن انھوں نے چار اپریل کو ہندو قوم پرست بی جے پی کی حمایت سے پہلی خاتون وزیراعلیٰ کے طور پر حلف لیا۔ آئینی طور پر انہیں اقتدار سنبھالنے کے چھ ماہ کے اندر اندر کشمیر اسمبلی کے لیے منتخب ہونا ہے۔
اننت ناگ جموں اور کشمیر خطوں کے درمیان واقع ایک تاریخی ضلع ہے، جہاں سے کشمیر کی تازہ علیحدگی پسند تحریک کا آغاز ہوا ہے۔ اننت ناگ انتخابی حلقے میں 84 ہزار ووٹروں کا اندراج ہوچکا ہے اور میدان میں محبوبہ کے مقابل کانگریس کے ہلال شاہ اور نیشنل کانفرنس کےا فتخار مسگر ہیں۔ مرحوم مفتی سعید نے افتخار مسگر کو 2014 کے انتخابی مقابلے میں چھ ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔
سابق وزرائے اعلیٰ غلام نبی آزاد اور عمر عبداللہ انتخابی مہم کے دوران اننت ناگ میں خاص سرگرم نظر نہیں آئے، حالانکہ ان کی پارٹیوں کے ہی دو امیدواروں کے ساتھ محبوبہ مفتی کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ علیحدگی پسندانہ لہجہ اختیار کرنے والے رکن اسمبلی انجینیئر رشید نے پہلے تو محبوبہ کے خلاف انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا، لیکن بعد میں ڈرامائی انداز میں انھوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔
اس پس منظر میں کہا جاسکتا ہے کہ محبوبہ کو سیاسی سطح پر کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ لیکن علیحدگی پسندوں نے مشترکہ طور پر لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ان انتخابات سے دُور رہیں۔ مسلح گروپ حزب المجاہدین نے بھی پوسٹروں کے ذریعہ لوگوں سے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ ان اپیلوں کا اثر ووٹنگ شرح پر تو پڑے گا ہی، لیکن سوال یہ ہے کہ محبوبہ اپنے مدمقابل کو کتنے ووٹوں سے شکست دیتی ہیں؟
دلچسپ بات ہے کہ محبوبہ مفتی نے انتخابی مہم کے دوران اپنی پارٹی پی ڈی پی کے سیاسی نظریہ کی تبلیغ نہیں کی۔ بلکہ انھوں نے ریاست کے بنیادی ڈھانچے، تعلیم کو فروغ دینے، معیشت کو سدھارنے اور صحت عامہ کی سہولات میں اضافہ کی باتیں کیں۔ انھوں نے اپنے پارٹی منشور کا ذکر نہِیں کیا، جس کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے خطوں کو خود حکمرانی کا حق دیا جانا ضروری ہے اور جنوب ایشیا میں امن کے قیام کے لیے مسئلہِ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔
کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد نے انتخابی مہم میں شمولیت سے احتراز کیا۔ تاہم کانگریس نے بالی ووڈ اداکار راج ببر اور معروف کرکٹر اظہرالدین کو میدان میں اُتارا۔ انڈیا کی ٹیم کے کپتان رہ چکے اظہرالدین نے ایک ریلی سے خطاب کے دوران کہا: ’پی ڈی پی نے آپ کو دھوکہ دیا ہے۔ اس پارٹی نے فرقہ پرستوں کو دُور رکھنے کے نام پر ووٹ لیے، اور بعد میں فرقہ پرستوں سے ہی ہاتھ ملالیا۔‘
زمینی سطح پر دیکھا جائے تو حالات محبوبہ کے حق میں نہیں ہیں۔ اننت ناگ میں چار جون کو مسلح شدت پسندوں نے دن دہاڑے دو پولیس اہلکاروں کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ جنوب اور شمال میں نصف درجن سے زائد مسلح تصادم ہوئے جن کے دوران لوگوں نے فوج کے خلاف مظاہرے کیے۔
حکومت خود اسمبلی میں اعتراف کرچکی ہے کہ صرف ایک سال کے اندر آٹھ سو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے سو سے زائد کو بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں قید کیا گیا۔ اس دوران علیحدگی پسندوں نے کشمیر میں فوجیوں اور وادی چھوڑ چکے کشمیری پنڈتوں کے لئے الگ کالونیاں تعمیر کرنے کے منصوبے کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے۔ اس حوالے سے اننت ناگ میں بھی مظاہرے ہوئے۔
ایک طرف تو محبوبہ مفتی نے اس بات کی تردید کردی ہے کہ فوجیوں یا پنڈتوں کو الگ کالونیوں میں بسایا جارہا ہے، دوسری طرف خود ان کے وزیرخزانہ حسیب درابو نے اسمبلی میں انکشاف کیا کہ چھ ہزار عارضی رہائش گاہوں کی تعمیر کے لیے 920 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستانی زیرانتظام کشمیر سے ہجرت کرکے جموں میں آ نے والے چھتیس ہزار ہندو خاندانوں کی باز آباد کاری کے لیے دو ہزار کروڑ روپے کی رقم مخصوص ہے۔
اس کے علاوہ اپوزیشن نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوگی۔ کانگریس کی جموں کشمیر شاخ کے صدر غلام احمد میر نے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ’دھاندلیوں سے ہوشیار رہیں۔‘
کانگریس کے ہی ایک اور رہنما رگزن جورا نے انکشاف کیا ہے کہ رات کے اوقات میں اننت ناگ میں ایک گاڑی سے برآمد ہوئےاٹھاون لاکھ روپے کی جو خطیر رقم برآمد ہوئی وہ ووٹروں میں تقسیم کے لیے تھی۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ وہ رقم جموں کشمیر بینک کی تھی جو اے ٹی ایمز میں جمع کرنے کے لئے پہنچائی جارہی تھی۔
اس صورتحال کے بیچ جب وزیراعلی محبوبہ اننت ناگ میں لوگوں سے مخاطب ہوئیں، تو ان کے لہجے اور ان کی باتوں سے ان کی مجبوریاں عیاں ہورہی تھیں۔ انھوں نے پارٹی کا بنیادی سیاسی نظریہ نظرانداز کرتے ہوئے تعمیر و ترقی، روزگار، اور نئی امیدوں جیسے خالی نعروں پر ووٹ مانگے۔
اس سب کے باوجود مبصرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ محبوبہ مفتی یہ سیٹ جیت جائیں گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے لوگ ووٹنگ میں حصہ لیں گے، اور محبوبہ کو کتنے ووٹ ملیں گے؟
اگر انہیں واپنے والد سے کم ووٹ ملے، یا اپوزیشن نے محض چند ہزار ووٹوں سے انتخاب ہارا تو ان کی مقبولیت کے حوالے سے نئی بحث چھڑ جائے گی۔